ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
فرمائیں گے۔ ایک تو اُس تیر کے بنانے والے کو جبکہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی بھی اُمید رکھے۔ دُوسرے جہاد میں تیر چلانے والے کو اور تیسرے تیر چلانے والے کی مدد کرنے والے کو۔'' ف : تیر چلانے والے کی مدد کرنے والے سے مراد وہ بھی ہوسکتا ہے جو اُسے تیر پکڑائے اور وہ بھی ہوسکتا ہے جو چلے ہوئے تیر اُٹھاکر لاکے دے۔ اہل بیت کو خاص طور پر تین باتوں کا حکم : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدًا مَّامُوْرًا مَّا اخْتَصَّنَا دُوْنَ النَّاسِ بِشَیْئٍ اِلاَّ بِثَلاثٍ اَمَرَنَا اَنْ نُّسْبِغَ الْوُضُوْئَ وَاَنْ لاَّ نَأْکُلَ الصَّدَقَةَ وَاَنْ لاَّنُنْزِیْ حِمَارًا عَلٰی فَرَسٍ۔ ( ترمذی ج١ ص ٢٩٨ باب ما جاء فی کراھیة ان ینزی الحمر علی الخیل ، مشکٰوة ص ٣٣٧) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اللہ کے) ایک مامور بندے تھے۔ آپ نے ہم کو (یعنی اپنے اہل بیت کو) دوسرے لوگوں سے الگ کرکے تین باتوں کے علاوہ اور کسی بات کا مخصوص طور پر حکم نہیں دیا۔ وہ تین باتیں یہ ہیں کہ (١) ہم وضوء کو پورے طور پر (یعنی اچھی طرح سے) کیا کریں (٢) ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں (٣) ہم گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑیں۔ ف : حدیث ِ پاک میں جو یہ فرمایا گیا کہ رسولِ اکرم ۖ اللہ کے ایک مامور بندے تھے، اس کا مطلب (واللہ اعلم) یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس بات کا حکم ہوتا تھا وہی کرتے تھے اپنی طرف سے نہ کوئی قانون بناتے تھے اور نہ اپنی خواہش نفس کے تحت کوئی حکم دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کسی بھی طبقہ و جماعت یا کسی بھی شخص و خاندان کے لیے خواہ وہ آپ کے نزدیک کتنا ہی محبوب کیوں نہ ہو الگ سے کسی چیز کا حکم دے کر اُس کو رَوا نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ حضرت ابن عباس نے وضاحت کی ہے کہ