ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
نبی علیہ السلام کے جانشین کے بارے میں مشاورت : تو دارُالخلافہ میں ایسے ہوا کہ وہ (اَنصاری) لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے۔ اُنہوں نے ایک چیز میں اختلاف کیا کہ یہ ہوجائیں، یہ ہوجائیں، یہ ہوجائیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر ، یہ حضرات بھی پہنچ گئے۔ بات چیت ہوئی اور پھر یہ طے ہوا۔ تقریر کی ہے وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور لوگوں نے بھی کی ہے۔ کسی نے کچھ کسی نے کچھ تجاویز پیش کیں پھر ابوبکر نے تقریر کی۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میرے دِل میں تھا کہ میں تقریر کروں گا اور میں نے سوچ رکھا تھا کہ یہ مضمون ہوگا، یہ کلمات ہوں گے جو مؤثر تر کلمات ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابوبکر کا حاضرین سے خطاب : لیکن وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو فِیْ بَدِیْہَتِہ اچانک فی البدیہہ جو تقریر کرنی پڑی اُس میں بھی مجھ سے بہتر، مجھ سے زیادہ نرمی کے ساتھ مجھ سے زیادہ وقار کے ساتھ انہوں نے یہ یاتیں کیں او ر جو کچھ میں نے سوچا تھا وہ سب کچھ بلکہ اُس سے بہتر اُنہوں نے بیان کیا کَانَ اَحْلَمَ مِنِّیْ وَاَوْقَرَ اُس کا اثر ہوگیا حاضرین پر۔ اِن میں خواص زیادہ عوام تھوڑے تھے۔ اپنے لیے عہدہ ناپسند : کہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ سوائے اِس کے کہ انہوں نے یہ کہا ہے بَایِعُوْا اَبَاعُبَیْدَةَ اَوْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بیعت کرلو تم لوگ ابوعبیدہ ابن الجراح سے یا عمر ابن خطاب سے، اِن دو میں سے کسی سے۔ میرا نام جو اِنہوں نے لیا یہ میری طبیعت کے خلاف تھا۔ کیونکہ میں ایسی جگہ جہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں بالکل دل سے ہی نہیں چاہتا آج تک بھی۔ وفات کے قریب جب انہوں نے تقریر کی ہے اُس میں کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے تو اگر جان سے ماردیا جائے بغیر خدا کا گناہ کیے تو یہ مجھے بہتر لگتا ہے بہ نسبت اِس کے کہ اَتَأَمَّرُ عَلٰی قَوْمٍ فِیْھِمْ اَبُوْبَکْرٍ ان میں ایسے لوگوں پر میں حکمرانی کروں جن میں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہوں اِس سے بہتر یہ ہے کہ میری گردن ماری جائے اَللّٰہُمَّ اِلَّا اَنْ اُسَوِّلَ نَفْسِیْ عِنْدَ الْمَوْتِ شَیْئًا لَااَجِدُہ یہ بات الگ ہے کہ موت کے وقت کوئی چیز ایسی میرا نفس میرے دل میں ڈال دے جو میں اِس وقت تک محسوس نہیں کررہا، تو یہ اُن کی آخری تقریر ہے۔