ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس منّا من تطیر او تطیرلہ اوتکھن اوتکھن لہ او سحر اوسحرلہ ومن اتٰی کاھنا فصدّقہ بما یقول فقد کفر بما اُنزل علٰی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ (مسند بزار) '' رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو خود بُری فال (بدشگونی )لے یا جس کے لیے بُری فال لی جائے ، یا جو خود کہانت کرائے یا جس کے لیے کہانت کرائی جائے، یا جو خود جادو کرے یا جس کے لیے جادو کیا جائے ، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اُس کی باتوں کی تصدیق کی تواُس نے محمد ۖ پر نازل شدہ چیز (قرآن وشریعت ) کا (ایک طرح سے )کفر کیا''۔ فائدہ : مذکورہ احادیث میں بیان کی ہوئی چیزوں کی مزید وضاحت انشاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ تمام خیالات باطل ہیں بلکہ نقل کے خلاف ہونے کے علاوہ عقل کے بھی خلاف ہیں۔ ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : من گھڑت اور ایجاد کردہ باتوں کی کوئی بنیاد تو ہوتی نہیں لیکن جب جاہلوں یا اُن کے گمراہ کن رہنمائوں سے اِن باتوں کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے جو عوام میں مشہور ہو گئی ہیں تو وہ من گھڑت روایتیں اورغلط سلط دلیلیں پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چنانچہ صفر کے مہینے کے منحوس ہونے کے متعلق بھی اِسی قسم کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنة۔ (موضوعات ملا علی قاری ص ٦٩) '' جو شخص مجھے (یعنی بقول اُن لوگوں کے حضور ۖ کو )صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا میں اُس کو جنت کی بشارت دوں گا''۔ اس روایت سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کے منحوس اور نامراد ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفر میں نحوست تھی اِسی لیے تو نبی ۖ نے صفر صحیح سلامت گزرنے پر جنت کی بشارت دی ہے۔