ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
سلفِ صالحین کسی سے ثابت نہیں ۔یہ سب بعد کے لوگوں کی ایجاد ہے اور اپنی طرف سے دین میں ایک نیا اضافہ ہے جو خالص بدعت اورواجب الترک ہے۔ اس دن آنحضرت ۖ کا غسلِ صحت فرمانا کہیں ثابت نہیں بلکہ اِس دن تورحمتِ عالم ۖ کی اُس بیماری کی ابتدا ہوئی تھی جس میں آپ کا وصالِ مبارک ہوا۔ اِس بارے میں مسلمانوں کے بڑے بڑے سلسلے اورمکتبۂ فکر کے حضرات متفق ہیں کہ آخری چہار شنبہ (یعنی صفر کی آخری بدھ ) کے روز رحمت ِعالم ۖ کے مرضِ وفات کا آغاز ہوا تھا ۔ چند حوالے جات ملاحظہ ہوں : مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ''٢٨صفر ١١ ھ چہار شنبہ (بدھ ) کی رات میں آپ ۖ نے قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دُعائے مغفرت کی ۔ وہاں سے تشریف لائے تو سرمیں درد تھا اورپھر بخار ہوگیااوریہ بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اوراِسی حالت میں وفات ہو گئی''۔ (ملاحظہ ہو'' سیرتِ خاتم الانبیاء '' ص١٤١) فقیہِ وقت حضرت مولانا رشید احمدصاحب گنگوہی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اِس دن میں جناب رسول اللہ ۖ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی تو یہودیوں نے خوشی کی تھی ۔ وہ اب جاہل ہندؤوں میں رائج ہوگئی۔نعوذ باللہ من شرورِ انفسنا ومن سیئاتِ اعمالنا '' ۔(فتاوٰی رشیدیہ ص ١٥) بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اِس دن صحت یابی حضور سیّد عالم ۖ کا کوئی ثبوت ہے ۔ بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفات ہوئی اُس کی ابتداء اِسی دن سے بتائی جاتی ہے''۔(احکامِ شریعت ج ٣ ص ١٨٣ ) بریلوی مکتبۂ فکر کے ایک دُوسرے عالم مولانا امجد علی صاحب تحریر کرتے ہیں : ''ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے ۔ لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں ۔سیر وتفریح اور شکار کوجاتے ہیں پوریاں پکتی ہیں اورنہاتے دھوتے ہیں ،