ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
میں کسی کا نام لے کر مقرر کردُوں کہ فلاں ہوگا میرے بعد اور تم اُس کی نافرمانی کرو اُس کا کہا نہ مانو تو تم پر عذاب آجائے گا۔ اِس لیے بہتر صورت یہی ہے کہ میں کسی کو نامزد نہ کروں تم خود ہی چن لو، انتخاب کرلو اُس کا۔ دارُالخلافہ کے لوگ جو فیصلہ دیں وہ سب قبول کرلیتے تھے : تو اُس زمانے میں ہر جگہ کا ایک دستور تھا کہ دارُالخلافہ جو ہوتا تھا وہ ہی جسے خلیفہ بنادے وہ بن جاتا تھا۔ کیونکہ ہر جگہ سے تو رائے لی ہی نہیں جاسکتی تھی یہ ممکن نہیں تھا اور خلیفہ بنانے میں اتنی سوچ بچار کی جائے کہ تاخیر ہوجائے یہ بھی ٹھیک نہیں۔ خلیفۂ وقت کا انتخاب تو فوری ہوتا ہے۔ خلیفۂ وقت کے انتخاب کے بعد دُوسرا درجہ یہ ہوتا ہے کہ آس پاس کے دُور دراز کے جو گورنر ہیں اُن کو لکھ دیا جاتا ہے کہ ہم نے فلاں کو خلیفہ بنالیا ہے۔ آجکل بھی ایسا ہی ہوتا ہے : اور اَب بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ آپ کو یاد ہوگا جب یہ انقلاب آیا، ضیاء صاحب آئے تو ہمیں پتا ہی نہیں چلا شام تک کہ ہوا کیا ہے؟ خبروں میں صبح کو آیا کہ اِنقلاب آگیا ہے اور فوج نے اِقتدار سنبھال لیا ہے۔ شام کو جب تقریر اُنہوں نے کی تو پتا چلا کہ یہ فلاں صاحب ہیں جنہوں نے اِقتدار سنبھال لیا ہے ورنہ یہی تردُّد تھا کہ اگر کسی چھوٹے آدمی نے اقتدار سنبھالا ہے تو فوج میں گڑبڑ ہوگی، لڑائی ہوگی۔ تو اصل میں دارُالخلافہ جو ہے اُس کو اہمیت حاصل ہے اِس لحاظ سے کہ وہاں امیر کا اِنتخاب ہوا کرتا ہے۔ تو اَب وہ دَور تو نہیں رہا اَب انتخابات ہوتے ہیں۔ پھر آتا ہے وزیر اعظم اور صدر۔ کہیں صدر نہیں ہے بادشاہ ہے صدر کے درجہ کا۔ بادشاہت فیل ہو بالکل ہی کنڈم ہوجائے یہ تو اَب تک بھی نہیں ہے۔ رُوس کا بھی ظہور ہوگیا، جمہوریت بھی ہوگئی، پارلیمانی نظام بھی ہوگیا، سب کچھ ہوگیا۔ زمانہ ترقی کرکے کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ برطانیہ میں آج تک بادشاہت ہے : مگر بادشاہت کا وجود اَب بھی ہے، برطانیہ میں ہے۔ وہ صدر کے درجہ میں ہے۔ وہ بات نہیں رہی کہ جو چاہے کرے، انتخابات ہوں گے، چُنا جائے گا لوگوں کو بھی اور وہ چنیں گے اپنے مختارِ کار شخص کو جسے وزیر اعظم کہا جائے گا ، بادشاہ اپنی جگہ ایسے ہے جیسے صدرِ مملکت۔ شدید ضرورت کے وقت وہ استعمال کرتا ہے اپنے اختیارات کو۔ تو رسول اللہ ۖ نے دارُالخلافہ پر چھوڑدیا گویا وہ جسے منتخب کریں۔