ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
اسی سال حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف ہوا اور وہ شام سے مدینہ شریف واپس آگئے۔ (البدایہ ج ٧ ص ١٥٤) ٭ ٣١ ھ میں کسریٰ قتل کردیا گیا وَھُوَ آخِرُ مُلُوْکِ الْفُرُسِ فِی الدُّنْیَا عَلَی الْاِطْلَاقِ۔ یہ دُنیا میں علی الاطلاق آخری فارسی بادشاہ تھا۔ اور حبیب بن مسلمہ نے آرمینیا کا علاقہ فتح کرلیا۔ اسی سال غزوہ صواری ہوا۔ یہ بحری لڑائی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن سعد امیر تھے۔ اُدھر قسطنطین بن ھرقل خود آیا تھا۔ کفار کے پانچ سو بحری جہاز تھے۔ اس میں بہت شدید لڑائی کے بعد فتح ہوئی۔ قسطنطین زخمی ہوگیا۔ کافی بعد تک زیر علاج رہا۔ اس میں محمد بن ابی بکر اور محمد بن حذیفہ بھی شریک تھے۔ زبردست لڑائی لڑی لیکن عبد اللہ بن سعد سے الگ الگ رہ کر ۔ محمد بن ابی بکر اور محمد بن حذیفہ نے حضرت عثمان پر نکتہ چینی شروع کی۔ اِن کی خامیاں اور عیوب گناتے تھے جن اُمور میں اِنہوں نے حضرت ابوبکر و عمر کے خلاف اپنی رائے سے عمل کیا تھا وہ بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون حلال ہے کیونکہ انہوں نے عبد اللہ بن سعد کو جو مرتد و کافر ہوگئے تھے، جن کا خون رسول اللہ ۖ نے (فتح مکہ کے وقت) مباح کردیا تھا (کہ مکہ مکرمہ میں جسے اور جہاں ملیں وہ ماردے) اور جن لوگوں کو جناب رسول اللہ ۖ نے نکال دیا تھا اُنہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا عامل مقرر کیا اور جناب رسول اللہ ۖ کے بڑے بڑے صحابہ کرام کو معزول کر دیا اور سعید بن العاص اور عبداللہ بن عامر کو مامور کردیا۔ عبد اللہ بن سعد کو یہ اطلاع ملی تو اُنہوں نے اِنہیں بلاکر پہلے تو جہاد میں ساتھ شریک ہونے سے منع کردیا تھا (مگر یہ اَز خود شریک ہوکر رہے) اور کہا : لَوْلَا لَااَدْرِیْ مَایُوَافِقُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَعَاقَبْتُکُمَا وَحَبَسْتُکُمَا۔ (البدایہ ج ٧ ص ١٥٨) اگر یہ حال نہ ہوتا کہ مجھے پتہ نہیں کہ امیر المؤمنین کی طبع مبارک کے مناسب کیا ہوگا تو میں تمہیں سزادیتا اور قید کردیتا۔