ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
عَلِیًّا اَنْ یَجْلِدَہ وَ کَانَ ھُوَ یَجْلِدُہْ۔ (بخاری ج١ص ٥٢٢۔ و ٤٦۔ ٤٧) پھر تم لوگوں کی یہ کیا باتیں ہیں جو مجھے پہنچتی رہتی ہیں۔ بہرحال جو تم نے ولید کے بارے میں ذکر کیا ہے تو انشاء اللہ اِس معاملہ میں ہم جو حق ہوگا وہ کریں گے۔عبید اللہ کہتے ہیں کہ پھر ولید کے (دو جہد والے کوڑے سے) چالیس کوڑے لگائے گئے۔ آپ نے حضرت علی کو حکم دیا اور حضرت علی ہی کوڑے لگوانے کے انچارج تھے (انہوں نے عبداللہ بن جعفر سے لگوائے اور خود شمار کرتے رہے) ۔ جس وقت قرآنِ پاک کی آیت کا نزول ہوا تھا اُس میں ولید کی اُس وقت کی حالت کا ذکر تھا، ہمیشہ کا نہیں صحابۂ کرام یہی مطلب سمجھے تھے۔ ورنہ حضرت عمر اِن کو کیوں حاکم مقرر کرتے۔ اِس لیے انہیں کسی بھی جگہ کے حاکم بنانے میں حضرت عثمان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ کوفہ سے حضرت سعد کو ہٹا کر اِنہیں اُن کی جگہ مقرر کرنے پر لوگوں میں چہ مگوئیاں ہوئیں جیساکہ اُسد الغابہ میں ہے۔ کیونکہ عمر مرتبہ اور تجربہ میں ولید کا اِن سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ شہادت عثمان کے بعد یہ رقہ چلے گئے تھے وہیں رہے اور حضرت علی و معاویہ سے یکسو رہے حتی کہ وہیں وفات پائی۔ (تہذیب التہذیب ج ١١ ص ١٤٣) حافظ ابن حجر اِن کے بارے میں برائی سے روکنے کے لیے لکھتے ہیں : وَالرَّجُلُ فَقَدْ ثَبَتَتْ صُحْبَتُہ وَلَہ ذُنُوْب اَمْرُھَا اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَالصَّوَابُ اَلسَّکُوْتُ۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ۔ (تہذیب التہذیب ج ١١ ص ١٤٤) یہ آدمی ایسے ہیں کہ اِن کی صحابیت ثابت ہے اور اِن کے جو گناہ ہیں اُن کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ سکوت کیا جائے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ اِسی سال یعنی ٣٠ ھ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دست ِ مبارک سے اَرِیْسْ نامی کنویں میں جناب رسول اللہ ۖ کی مبارک انگوٹھی گرگئی۔ یہ کنواں اُس زمانہ میں مدینہ شریف کی آبادی سے دو میل کے فاصلہ پر تھا۔ یہ انگوٹھی جناب رسول اللہ ۖ کے دست مبارک میں رہی تھی پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مبارک ہاتھوں میں رہی تھی پھر چھ سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دست ِ مبارک میں رہی۔ اِس کی بہت تلاش کی گئی۔ آپ نے بہت روپیہ خرچ کیا۔ کنویں میں پانی بھی تھوڑا ہی تھا لیکن وہ نہ مل سکی۔