ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
بخاری شریف میں آتا ہے کہ : اِنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرِمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْاَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ یَغُوْثَ قَالَا (لِعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ) مَا یَمْنَعُکَ اَنْ تُکَلِّمَ عُثْمَانَ لِاَخِیْہِ الْوَلِیْدِ فَقَدْ اَکْثَرَ النَّاسُ فِیْہِ فَقَصَدْتُّ لِعُثْمَانَ حِیْنَ خَرَجَ اِلَی الصَّلٰوةِ۔ قُلْتُ اِنَّ لِیْ اِلَیْکَ حَاجَةً وَھِیَ نَصِیْحَة لَّکَ قَالَ یَا اَیُّھَا الْمَرْئُ قَالَ اَبُوْعَبْدِ اللّٰہِ اُرَاہُ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ فَانْصَرَفْتُ ۔ حضرت مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمن بن الاسود نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و عنہم کے بھانجے عبید اللہ سے کہا کہ تم اپنے ماموں سے اِن کے بھائی ولید کے بارے میں کیوں بات نہیں کرتے کیونکہ لوگ حضرت عثمان کے بارے میں بہت باتیں بنارہے ہیں۔ (عبید اللہ کہتے ہیں) میں نے حضرت عثمان سے اِس بارے میں گفتگو کا اِرادہ کیا جب وہ نماز کے لیے نکلے تو میں نے عرض کیا مجھے جناب سے کام ہے اور وہ جناب ہی کے لیے نصیحت (وخلوص) کا کام (مشورہ) ہے۔ آپ نے اِنہیں جواب دیا اے آدمی ! میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔ عدی کہتے ہیں میں واپس چلا آیا۔ جب میں نے نماز پڑھ لی تو میں مسور اور عبد الرحمن کے پاس آیا اور انہیں اپنی گفتگو اور حضرت عثمان کا جواب سنایا۔ ان دونوں نے کہا کہ تم نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی، میں ابھی اِن کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ حضرت عثمان کا آدمی مجھے بلانے آیا۔ پھر حدیث شریف میں اِن کی گفتگو آئی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ان سے کبھی کھوٹا معاملہ نہیں کیا نہ کبھی اِن کی نافرمانی کی۔ کیا جس طرح اِن کا حق مجھ پر تھا ویسا ہی میرا حق آج تم لوگوں پر نہیں ہے (کہ ذرا صبر و تحمل سے کام لو، اعتراضات اور زبان درازی نہ کرو اور دیکھو کہ میں کیا کرتا ہوں ،غلط کام تو کروں گا نہیں) عبید اللہ نے جواب دیا ضرور آپ کا ہم پر ایسا ہی حق ہے۔ آپ نے فرمایا : فَمَا ھٰذِہِ الْاَحَادِیْثُ الَّتِیْ تَبْلُغُنِیْ عَنْکُمْ فَاَمَّا مَاذَکَرْتَ مِنْ شَأنِ الْوَلِیْدِ فَسَنَأْخُذُ فِیْہِ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِالْحَقِّ قَالَ فَجُلِدَ الْوَلِیْدُ اَرْبَعِیْنَ جَلْدَةً وَاَمَرَ