ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
موں زاد بھائی تھے۔ انہیں دو جنرلوں کے لشکروں کا سردار بھی بنادیا۔ اُس وقت عبد اللہ بن عامر کی عمر پچیس سال تھی۔ عبد اللہ بن عامر نے اِس سال یا اِس سے پہلے سال فارس کا علاقہ فتح کیا تھا۔ اِسی سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر نماز میں قصر نہیں کیا جس پر صحابہ کرام نے اعتراض کیا جن میں حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابہ تھے۔ حتی کہ ابن ِمسعود نے کہا کیا اچھا ہوتا کہ میرے حصہ میں چار رکعت کے بجائے وہ دو رکعتیں آیتیں جو مقبول ہوتیں۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی تو اِنہیں آپ نے جواب دیا کہ میں نے مکہ مکرمہ میں شادی کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیوی مدینہ میں بھی ہے اور آپ کا قیام مدینہ ہی میں رہتا ہے جہاں کہ آپ کے اہل خانہ ہیں۔ آپ نے فرمایا طائف میں میرا مال ہے۔ میں حج سے فراغت کے بعد وہاں جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا آپ کے اور طائف کے درمیان تو تین دن کی مسافت ہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ یمن کے کچھ لوگوں نے یہ بات کہی ہے کہ اقامت کی حالت میں بھی نماز کی دو ہی رکعتیں ہوتی ہیں تو شاید مجھے دو رکعتیں پڑھتا دیکھ کر میرے عمل کو دلیل بنا لیتے (اِس لیے میں نے قصر نہیں کیا اَتمام کیا ہے یعنی دو نہیں چار رکعتیں پڑھی ہیں) ۔ حضرت عبد الرحمن نے فرمایا : کہ جناب رسول اللہ ۖ پر وحی آیا کرتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں اسلام بھی کم تھا (اِس کے باوجود) آپ یہاں دو ہی رکعتیں پڑھاکرتے تھے۔ ابوبکر بھی یہاں دو ہی رکعتیں پڑھتے رہے اور اِسی طرح عمر بن الخطاب بھی۔ اور آپ خود بھی اپنی اَمارت کے (سابقہ) حصہ میں دو ہی پڑھتے رہے ہیں۔ اِس پر آپ خاموش ہوگئے۔ (البدایہ ج ٧ ص ١٥٤) یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مسلک حنفی یہ ہے کہ جہاں کسی شخص نے شادی کی ہو تو بیوی کا وطن اُس کا وطن شمار ہوگا۔ وہ جب وہاں پہنچے گا چاہے ایک ہی دن ٹھہرے پوری نماز پڑھے گا قصر نہ کرے گا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مہاجر تھے۔ انہیں حج کے بعد تین دن سے زیادہ مکہ مکرمہ میں رہنے کی