ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
آریہ علیحدہ کوشش کررہے ہیں کہ مسلمانوں کو مرتد کریں۔ ایک کروڑ کا چندہ کیا جارہا ہے، دس لاکھ دہلی میں جمع ہوگئے۔ عیسائی مشنریاں اپنی چالوں سے ایک لاکھ اِس سے زیادہ ہندوستانیوں کو عیسائی بنارہی ہیں۔ سکھ اپنی جد و جہد سے اپنا حلقہ وسیع کرتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندئووں کو سکھ بناتے بناتے اور اپنے اپنے دیہاتوں وغیرہ میں مسلمانوں کے اِقتدار کو مٹاتے جارہے ہیں۔ کیا اِن حالات کے ہوتے ہوئے یہ چاہیے تھا کہ آپ کے حلقہ اثر میں آئے ہوئے لوگ خارج کیے جائیں یا یہ چاہیے تھا کہ آپ کھینچ کھینچ کر لائیں اور اُن کو صحیح العقیدہ مسلمان بنائیں۔ ٭ عقیدہ ترک ِموالات میں اور شرکت ِتحریک میں خود مولانا طیب صاحب غور کریں۔ اگر حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ زندہ ہوتے تو کیا کرتے اور اُن کا عمل کیا ہوتا؟ علیٰ ہذا القیاس اگر حضرت نانوتوی قدس اللہ سرہ' العزیز زندہ ہوتے تو کیا کرتے جن کی نسبت حضرت گنگوہی قدس اللہ سرہ' العزیز کے الفاظ ہیں کہ ''جب تک مولوی قاسم صاحب موجود تھے مجھ کو یقین تھا کہ پہلے یہ ہمارا سر کٹوائیں گے پھر اپنا، اَب تو جہاد کی اُمید بھی جاتی رہی''۔ ٭ 1857ء کے مجاہدین کی اسپرٹ کیا تھی؟ کیا وہ تھی جو اَب دائرہ اہتمام دکھلارہا ہے یا حلقہ بگوشان خانقاہ تھانہ بھون عمل میں لارہے ہیں۔ میں متقدمین ِاسلام اور قرونِ اُولیٰ کی اسپرٹ کی طرف توجہ نہیں دلاتا، میں نصوصِ قرآنیہ اور آیاتِ متعلقہ بالجہاد کو پیش نہیں کرتا، میں حضرت سید احمد شہید اور مولانا اسمٰعیل شہید رحمة اللہ علیہما کے واقعات کو نہیں دہراتا، میں ابھی قریبی زمانہ اور مخصوص بزرگوں کے جذبات اور اعمال کو پیش کرتا ہوں۔ ٭ اِجمالی طور پر اِتنا عرض کرتا ہوں کہ تحریکاتِ آزادی میں 1914ء سے شریک ہوں اور اُس کو مسلمانوں کا مذہبی اور انسانی فریضہ سمجھتا ہوں۔ پہلے میں تشدد والی انقلابی پارٹی میں شریک تھا اور حضرت شیخ الہند قدس اللہ سرہ' العزیز ہمارے امام تھے اور اِسی سلسلے میں ہمارا مالٹا کی اسیری کا واقعہ پیش آیا ہے۔ وہاں سے واپسی پر خلافت ِکمیٹی، جمعیة، کانگریس میں شرکت اور عدم تشدد کی پالیسی میں دخول ہوا۔ اِسی زمانہ میں آزاد خیال، ترقی پسند مسلمان لیگ سے علیحدہ ہوکر خلافت میں شریک ہوئے اور کانگریس میں بھی رہے کیونکہ 1916ء سے لیگ اور کانگریس متحد ہوچکے تھے۔ ان کے نکل جانے کی وجہ سے لیگ میں جان باقی