ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
رہے ہیں تو تم نے کہا تھا کہ روز بروز بڑھتے جاتے ہیں۔ تو ایمان کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی قبولیت عام ہوکر مکمل ہوجائے۔ میں نے تم سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا دین سے بد دِل ہوکر کوئی مرتد ہوا تو تم نے کہا کہ نہیں۔ تو ایمان کی مِٹھاس ایسی ہی ہوتی ہے جب دل میں اُتر جائے (تو پھر نکلتی نہیں) ۔ میں نے تم سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ بدعہدی کرتے ہیں تو تم نے کہا کہ نہیں۔ تو رسولوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ بدعہدی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا تم باہم لڑتے ہو تو تم نے کہا تھا کہ ہاں کبھی اُن کو کامیابی ہوتی ہے کبھی ہم کو۔ تو رسولوں کی اِسی طرح (اللہ کی طرف سے) آزمائش کی جاتی ہے مگر آخری فتح انہی کی ہوتی ہے۔ میں نے تم سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ وہ تم کو کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے کہا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہیں اور یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور تم کو بتوں کی عبادت سے روکتے ہیں اور نماز، سچ، پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں۔ آخر میں رُوم کا عیسائی بادشاہ اپنے سوالات کی وجوہات بتلاکر اور نبی علیہ السلام کے بدترین دُشمن ابوسفیان ١ کے جوابات سن کر جس نتیجہ پر پہنچا اُس کا اس نے برملا اظہار کیا اور کہا تم نے جو باتیں کی ہیں اگر سچ ہیں تو وہ بہت جلد اِس جگہ پر قابض ہوجائیں گے جہاں میرے قدم ہیں۔ اور میں جانتا تھا کہ یہ آخری نبی آنے والے ہیں مگر یہ توقع نہ تھی کہ وہ تم عربوں میں آئیں گے۔ اگر میں اُن تک پہنچ پاتا تو ان سے ملنے کی کوشش کرتا اور اگر میں اُن کے پاس ہوتا تو اُن کے پائوں دھوتا، پھر اُس نے آپ کا خط مبارک دربار میں منگواکر پڑھا۔ بعد اَزاں اُس نے اپنے درباریوں کو آپ کے ہاتھ پر اسلام لانے کی دعوت بھی دی مگر وہ لوگ نہ مانے اور یہ بھی اسلام کی حقانیت کا قائل ہونے کے باوجود اسلام نہ لاسکا۔ چودہ صدیوں پہلے پیش آنے والے اِس واقعہ کو تحریر کرنے کا مقصد حال ہی میں پیش آنے والے ایک اہم واقعہ کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلانا ہے۔ ١١ دسمبر کے روزنامہ نوائے وقت میں برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ''دیکھ رہا ہوں ایک دن کوئی مسلمان برطانیہ کا وزیر اعظم ہوگا''۔ ١ حضرت ابو سفیان اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ بہت بعد فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے۔