ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
چنانچہ برقع خریدا گیا اور اس نے فورًا پہن لیا۔ مکتبہ اسلامی کے ذمّہ دار قصہ کو پورا کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : چند مہینہ گزرنے کے بعد ہم نے اِن دونوں کو نہ پایا۔ لوگ ایک دوسرے سے اُس فلسطینی اور اُس کی بیوی کے بارے میں پوچھنے لگے کہ بھائی اُن دونوں کا کیا ہوا؟ کہاں وہ چلے گئے؟ اُن کے بارے میں کچھ معلومات نہ ہوسکیں۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ آدمی دکھائی دیا چھ یا سات مہینہ کے بعد اور اُس نے اپنی داستان یوں سنائی : میری بیوی کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہوگئی تھی اِس کے لیے ضروری تھا کہ جہاں سے پاسپورٹ بنا ہے وہیںسے تجدید کروائی جائے۔ اس نے باپردہ سفر کا اِرادہ کیا۔ میں نے اُسے ڈرایا بھی کہ اِس طرح برقع پہن کر سفر کرنے میں بڑی مشکلات اور دُشواریاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ اُس نے شدت کے ساتھ اِس تجویز کو مسترد کردیا اور جہنم کے ایندھن بننے والے گنہگار کافروں کے سامنے سر جھکانے کو راضی نہ ہوئی۔ وہ تو صرف اللہ کے لیے سر جھکا سکتی تھی۔ جب ہم ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو لوگوں نے ہمیں گھور گھور کر دیکھا۔ پھر ایئرہوسٹس نے کھانا اور اس کے ساتھ شراب تقسیم کی جس کا مسافرین پر فوری اثر ہوا۔ وہ لوگ ہمارا مذاق اُڑانے لگے۔ زور زور سے ٹھٹھے لگانے لگے۔ لیکن میری بیوی اُن کی پرواہ کیے بغیر زیرِ لب مسکراتی رہی۔ بلکہ وہ تو اِن کی باتوں کا ترجمہ کرکے مجھے بتارہی تھی۔ میرے دل میں تو تیر چبھ رہے تھے لیکن اُس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ : ''یہ طعنے جو ہم سن رہے ہیں اِن مشقتوں کے سامنے جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اُٹھائی ہیں کوئی حیثیت نہیں رکھتے''۔ ہوائی جہاز ہمیں لے کر اُس شہر میں اُتر گیا جہاں ہمیں جانا تھا۔ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ ہم سیدھے بیوی کے گھر جائیں گے اور جب تک کام نہ ہوجائے وہیں ٹھہریں گے۔ لیکن میری بیوی کے سوچنے کا انداز دوسرا تھا۔ اُس نے کہا کہ : ''میرا خاندان انتہائی متعصب ہے۔ میں ابھی ان کے پاس نہیں جانا چاہتی ہوں۔ پہلے ہم ایک کمرہ کرایہ پر لے کر اُس میں رہیں گے پھر نیا پاسپورٹ لینے کی کارروائی پوری کریں گے پھر اپنے گھروالوں سے ملاقات کے لیے جائیں گے ،یہ ہمارا پروگرام ہے۔ اگلے دن ہم پاسپورٹ آفس آگئے۔ ذمّہ دار آفیسر نے ہم سے پرانا پاسپورٹ اور فوٹو مانگا۔ میری بیوی نے اُسے سادہ فوٹو دیا جس میں صرف اُس