ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
ہوتی ہے : -1وَاِنْ کَانَ مَوْضَعُ السُّجُوْدِ اَرْفَعُ مِنْ مَّوْضَعِ الْقَدَمَیْنِ بِقَدْرِ لَبِنَةٍ اَوْ لَبِنَتَیْنِ مَنْصُوْبَتَیْنِ جَازَ وَاِنْ زَادَ لَمْ یَجُزْ ۔ (عالمگیری ص ٧٠ ج١) اِس جزئیہ میں اگر موضع قدمین سے حقیقی معنی مراد لیں تو کرسی پر پائوں لٹکاکر بیٹھنے والے معذور کے لیے سجدہ کرنا متعذر اور تقریباً ناممکن ہے اور اگر مجازی معنی یعنی کرسی کی نشست گاہ مراد ہو تو اِس کے لیے دلیل چاہیے جو موجود نہیں۔ -2 وَلَوْ صَلّٰی عَلَی الدُّکَانِ وَاَدْلٰی رِجْلَیْہِ عَنِ الدُّکَانِ عِنْدَ السُّجُوْدِ لَایَجُوْزُ وَکَذَا عَلَی السَّرِیْرِ اِذَا اَدْلٰی رِجْلَیْہِ عَنْہُ لَایَجُوْزُ ۔ (الجوہرة النیرة ص ٦٣ ج١) مطلب یہ ہے کہ چبوترے یا تخت پر نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں جاتے ہوئے اگر آدمی اپنی ٹانگیں چبوترے یا تخت سے باہر لٹکالے خواہ پیچھے کو یا آگے کو تو اُس کا سجدہ صحیح نہ ہوگا۔ -3 مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''کرسی پر پائوں لٹکاکر بیٹھنا اور ٹیبل پر سجدہ کے لیے سر جھکانا جائز نہیں''۔ (کفایت المفتی ص ٤٢٢ ج٣) -4 مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''بعض لوگوں نے یہ مسئلہ گھڑ رکھا ہے کہ تشہد میں بیٹھنا ہی ضروری نہیں۔ بس (ریل میں سیٹ پر) پائوں لٹکاکر بیٹھ گئے اور اطمینان سے دوسرے تختہ (یعنی سیٹ) پر ٹیک دیا اور اپنے نزدیک نماز ادا کرلی۔ ذرا مشقت بھی گوارا نہیں چاہیے، فرض سر سے اُترے یا نہ اُترے''۔ (وعظ شرائط الطاعة) اِس سے معلوم ہوا کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے نزدیک اس طرح سجدہ کرنے سے کوئی فرض رہ جاتا ہے جو یہی ہوسکتا ہے کہ نمازی کی ہیئت اَقْرَبْ اِلَی الْقُعُوْدِ کی ہے جس میں سجدہ نہیں سجدے کا اِشارہ کیا جاتا ہے۔