ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2007 |
اكستان |
|
عباس اور حضرت ابوطالب مکی اور حضرت حجة الاسلام امام غزالی رضی اللہ عنہم کے قول سے ثابت ہوا۔ اور کوئی شبہہ نہ کرے اُس حدیث سے جو اصبہانی نے روایت کی ہے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اور وہ قبول ہوجاوے تو اُس کے اَسی برس کے گناہ بجش دیے جاویں گے اس طور کہ اُس میں قبولیت کی قید ہے تو معلوم ہوا کہ بعضا درود قبول نہیں بھی ہوتا ہے، یہ اِس لیے کہ تمام احادیث میں مطابقت کرنی حتی المقدور ضروری ہے۔ پس مراد اِس سے وہی ہے جو پہلے مذکو رہوا یعنی جس کو پورا ثواب اور پوری قبولیت ایک دفعہ درود پڑھنے کی میسر ہو تو اَسی سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور جس کو مقدار معین سے کم ثواب ہو کسی نقصان کی وجہ سے اُس کو یہ فضیلت میسر نہ ہوگی گو کسی قدر ثواب ہوگا ۔اور اہل علم پر یہ محاورات شریعہ مخفی نہیں ہیں اس مقام کو خواص و عوام بغور ملاحظہ فرمائیں کہ محض فضل الٰہی سے قلب پر وارد ہوا ہے اور اس کی نفاست اہل علم بنظر انصاف معلوم کرلیں گے۔ اور بعض اکابر علماء نے جو احادیث مذکورہ میں یہ تاویل کی ہے کہ قبولیت سے مراد یہ ہے کہ رحمت حضور ۖ کو حاصل ہوجاتی ہے اور جو چیز سائل نے درود میں طلب کی تھی وہ یہی ہے، رہی یہ با ت کہ سائل کو ثواب ملے یہ ضرور نہیں ،کبھی ملتا ہے جبکہ شرائط معتبرہ بجالائیں جاویں اور اگر شرائط نہ ادا ہوں تو ثواب نہیں ملتا ،یہ معنی رَدِّدرود کے ہیں ۔سو یہ تاویل نہایت بعید ہے اور اس سے لازم آتا ہے کہ جب قبولیت کو ایسا ضروری قرار دیاجاوے تو کافر کے درود کا مقبول ہونا بھی لازم ہو، اور اِس کا کوئی قائل نہیں اِس لیے کہ کافر کسی مردہ کو (خواہ اُس کی موت محض ظاہری ہو جیسے کہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کہ وہ حضرات فی الحقیقت اعلیٰ حیات کے ساتھ بعد ظاہری موت کے موصوف ہیں یا دوسرے قسم کے مردہ ہوں) اپنی دُعا سے نفع نہیں پہنچاسکتا۔ پس تاویل وہی قوی اور صحیح ہے جو بندہ نے محض موہبت ِالٰہیہ سے بیان کی۔ نیز قبولیت کے معنی مذکور جو اُن علماء نے بیان کیے ہیں علاوہ وجہ مذکور کے دوسری وجہ سے بھی بعید ہیں اِس لیے کہ شئے کا وجود مع اپنے لوازمات کے ہوا کرتا ہے اور قبولیت دُعا کے لوازم سے ثواب اور رضا الٰہی ہے پس قبولیت کا ثواب سے خالی ہونا غیر معقول ہے اور کافروں کے جو مقاصد دُنیوی بر آتے ہیں۔ وہ اِس اعتبار سے نہیں کہ خدائے تعالیٰ اُن کی دُعا قبول کرتا ہے بلکہ اِس حیثیت سے کہ تقدیر الٰہی میں وہ چیز اُن کو ملنے والی ہوتی ہے اُن کا طلب کرنا اُس تقدیر کے موافق ہوجاتا ہے۔ پس مقصود حاصل ہوجاتا ہے اور کافر بوجہ نافرمانی ٔخالق کے اِس امر کے اہل