ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
مغرب، عشاء ہوجبکہ یہ لوگ مسافر نہ ہوں اورقصر نہ کریں تو امام جب دو رکعت پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے لگے تب یہ حصہ چلا جائے اور اگریہ لوگ مسافر ہوں اورقصر کرتے ہوں یا دو رکعت والی نماز ہو جیسے فجر، جمعہ اورعیدین کی نما زتو ایک ہی رکعت کے بعد یہ حصہ چلا جائے اوردوسرا حصہ وہاں سے آکر امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھے ۔ امام کو ان لوگوں کے آنے کا انتظار کرناچاہیے۔ پھر جب بقیہ نماز امام پوری کرچکے تو سلام پھیر دے اوریہ لوگ سلام پھیرے بغیر دشمن کے مقابلہ میں چلے جائیں اورپہلے لوگ پھریہاں آکر اپنی بقیہ نماز قراء ت کے بغیر پوری کرلیں اورسلام پھیر دیں اِس لیے کہ وہ لوگ لاحق ہیں۔ پھر یہ لوگ دشمن کے مقابلہ میں چلے جائیںاوردوسرا حصہ یہاں آکر اپنی نمازقراء ت کے ساتھ پوری کرلے اورسلام پھیر دے اِس لیے کہ وہ لوگ مسبوق ہیں۔ مسئلہ : حالت نماز میں دشمن کے مقابلے میں جاتے وقت یا وہاں سے نماز پوری کرنے کے لیے آتے وقت پیدل چلنا چاہیے، اگر سوار ہو کر چلیں گے تو نماز فاسد ہو جائے گی اس لیے کہ یہ عملِ کثیر ہے۔ مسئلہ : دوسرے حصہ کا امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھ کرچلا جانا اور پہلے حصہ کا پھر یہاں آکر اپنی نماز پوری کرنا اس کے بعد دوسرے حصہ کا یہیں آکر نماز پورا کرنا مستحب اور افضل ہے ورنہ یہ بھی جائز ہے کہ پہلا حصہ نماز پڑھ کر چلا جائے اوردوسرا حصہ امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھ کر اپنی نمازوہیں پوری کرلے تب دشمن کے مقابلہ میں جائے ۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچ جائیں تو پہلا حصہ اپنی نماز وہیں پڑھ لے یہاں نہ آئے۔ مسئلہ : نماز پڑھنے کا یہ طریقہ اُس وقت کے لیے ہے کہ جب سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتے ہوں مثلاً کوئی بزرگ شخص ہو (جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی)اورسب چاہتے ہوں کہ اسی کے پیچھے نماز پڑھیں ورنہ بہتر یہ ہے کہ ایک حصہ ایک امام کے ساتھ پوری نماز پڑھ لے اوردشمن کے مقابلہ میں چلا جائے پھر دوسرا حصہ دوسرے شخص کو امام بناکر پوری نماز پڑھ لے۔ مسئلہ : اگر یہ خوف ہو کہ دشمن بہت ہی قریب ہے اور جلد یہاں پہنچ جائے گا اور اس خیال سے ان لوگوں نے پہلے طریقے سے نماز پڑھ لی۔ اس کے بعد یہ خیال غلط نکلا تو امام کی نماز تو صحیح ہوگئی مگر مقتدیوں کو اس نماز