ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
لیتے ہیں اِس کے بعد مال لاتے ہیں یعنی بیوپاری کا کسی آڑھتی کے پاس مال لانا اِس کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ آڑھتی اس کو قرض دے۔ آڑھتی بھی بیوپاری کواپنا پابند کرنے کے لیے خود اُس کو بلاطلب قرض (Advance)دیتا ہے ۔ اس نظام کو مزید پختہ کرنے کے لیے منڈی کے آڑھتیوں میں اجتماعی طورپر یہ ضابطہ طے پاتا ہے کہ اگر مقروض بیوپاری اپنا مال کسی اورآڑھتی کے پاس لے جائے تواُس آڑھتی پر لازم ہوگا کہ وہ حاصل شدہ آڑھت اورکمیشن قرض دینے والے آڑھتی کو ادا کرے۔علاوہ ازیں اکثر آڑھتی بیوپاری کا لایا ہوا کچھ مال نسبتاً کم داموں پر خود خرید لیتے ہیں اور بیوپاری زیرِبار ہونے کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بیوپاری ، ٹھیکدار اورزمیندار کے قرض لینے اور آڑھتی کے قرض دینے کا موجودہ رواج مفاسد پر مشتمل ہے جن میں سے چند ایک اُوپر ذکر بھی ہوئے ہیںاِس لئے اِس رواج کو ترک کرناضروری ہے۔اگر کبھی کسی بیوپاری کو کسی مجبوری سے قرض لینے کی نوبت آجائے اور آڑھتی اُس کو قرض دینے پر راضی ہوتو مندرجہ ذیل اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے : (١) بیوپاری وغیرہ کو اِس بات کا پابند نہ کیا جائے کہ وہ مال صرف قرض دینے والے آڑھتی کے پاس لائے۔ (٢) آڑھتی بیوپاری کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس سے کم نرخ پر سامان نہ خریدے کیونکہ ایک تو اِس میں دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانا ہے اوردوسرے اپنے دئیے ہوئے قرض پر نفع اُٹھانا ہے جو سودکی صورت ہے۔ (٣) یہ ضابطہ اورقانون کہ'' فروخت کرنے والے آڑھتی پر لازم ہوگا کہ وہ حاصل شدہ کمیشن اورآڑھت قرض دینے والے آڑھتی کو دے''ناجائزہے اور قرض دینے والے آڑھتی کو اِس کا لینا حرام ہے کیونکہ کام دوسرے نے کیا ہے اِس نے نہیں کہا لہٰذا ایک تو وہ دوسرے کا حق مارتا ہے اوردوسرے وہ یہ رقم اپنے قرض کی بنیاد پر لیتا ہے تو یہ کھلاسود ہے ۔ تنبیہ : جیسے اُوپر ذکر ہوا چونکہ بیوپاری وغیرہ کو قرض دینے کا رواج ہے اورجتنا زیادہ قرض دیا جائے اورجتنے زیادہ بیوپاریوں کو دیا جائے اُتنا زیادہ کام بڑھتا ہے تو آڑھتی لوگوں کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں اوراُن