ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
میں عرض کروں کہ مرز ائیوں کا یہ ایسا احمقانہ اصول ہے کہ اس کو تسلیم کرلینے کے بعد مرزائی کسی کافر کی کفر کی طرف دی گئی دعوت کو بھی ٹھکرا نے کے قابل نہیں رہ جاتے ۔اگر کوئی عیسائی انہیں ایسے ہی ملزم گردانتے ہوئے عیسائیت کی دعوت دے تو بھلا وہ کیسے جواب دے سکتے ہیں ۔ اگر کوئی یہودی ، ہندو، سکھ، آریہ ، بدھ مت غرضیکہ دہریہ بھی انہیں اپنے مذہب کی دعوت دے تو اس اصول کی بناء ان کا منہ بند کا بند ہی رہے گا۔ اختتام ِمضمون سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک شبہہ کا ا زالہ کردیا جائے جو مرزائی احباب موقعہ بے موقعہ پیش کیا کرتے ہیں اوروہ یہ کہ ''بریلوی حضرات دیوبندیوں کو کافر کہتے ہیں ،دیوبندی حضرات بریلویوں کو اوریہ دونوں اہلِ حدیثوں کے بارے میں بھی ایسا ہی خیال رکھتے ہیں اور اہلِ حدیث حضرات کامطمح نظران دونوں کے متعلق بھی کچھ ایسا ہی ہے''۔ ممکن ہے کسی کو یہاں بھی ایسا ہی شبہہ گزرے کہ میں کچھ بھی ہو جائوں پھر بھی فتوئوں کی زد سے تو باہر نہیں ہو جائوں گا۔ سو میں گزارش کروں کہ بریلوی حضرات دیوبندی اوراہلِ حدیث حضرات کو جو کافرکہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ دونوں گستاخ ہیں لیکن یہ دونوں ان کے اس الزام کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک تو جو شخص نبی پاک ۖ کے بال مبارک کی توہین کرے وہ بھی کافر ہے ۔ حضور اقدس ۖکی شان توبہت اعلیٰ وارفع ہے ۔ کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر حضور تو حضور (ۖ) ہیں ہمارے نزدیک تو جو شخص صرف اتنا کہے کہ مدینہ کی دہی کھٹی ہے وہ بھی قابلِ مواخذہ ہے ۔ اسی طرح یہ دونوں فریق اس بات کے مدعی ہیں کہ بریلوی حضرات شرک کرتے ہیں لیکن وہ سو سو بار اس سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں،سو اگر لزوم ہو تو بھی تو اس کا التزام نہیں پایا جاتا ۔ لیکن دوسری طرف دیکھیے ہم جو کہتے ہیں ''مرزا مدعی نبوت تھا۔مرزائی اسے نبی مانتے ہیں ۔رسول تسلیم کرتے ہیں ۔مسیح موعود لکھتے ہیں'' تو اس کے جواب میں مرزائی حضرات انکار نہیں کرتے بلکہ اقرار کرتے ہیں۔ سواب یہ محض الزام نہیں رہابلکہ اقرارِ جرم ہے ۔اب مرزائی حضرات کی حیثیت ملزم کی نہیں رہی بلکہ مجرم کی ہوگئی ہے۔ مرزائی حضرات غور کریں کیا دونوں معاملات کی نوعیت ایک جیسی ہے؟جب نوعیت ایک جیسی نہیں تو حکم کیسے