ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
فرماتے تھے تیری رات تو ہرگز چور والی رات نہیں۔ ابھی اس کی فریاد پر کوئی کارروائی نہ ہونے پائی تھی کہ چند روز بعد حضرت اسماء بنت عُمیس کا جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں ایک ہارگم ہوگیا ۔یہ شخص بھی اس کی تلاش میں حصہ لینے لگا اور یہ دعاء کرتا تھا کہ خداوندا اس نیک گھرانے کو جس نے نقصان پہنچایا ہے تو اُس کی گرفت فرما۔تلاش کرتے کرتے یہ زیور ایک سنار کے پاس ملا ۔سنار نے کہا کہ میرے پاس ایک شخص لایا تھا اس کا حلیہ یہ تھا کہ ہاتھ کٹا ہوا تھا (یعنی یہی شخص نکلا جو خلیفۂ وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے یہاںٹھہراہوا تھا اوران کے پاس حاکم یمن کی شکایت لے کر آیا تھا)۔جب سنار نے پورا حال بتلایا تو اس نے چوری کا اقرار کرلیا پھر اُسے سزادی گئی ۔حضرت صدیق اکبر فرماتے تھے کہ اس شخص کی چوری سے زیادہ اس کی بدعاء میری طبیعت پر گراں گزرتی تھی! اس واقعہ سے بھی یہ معلوم ہورہا ہے کہ اس کے دل میں خدا کا کوئی خیال نہ تھا گووہ رات کو عبادت بھی کرتا تھا کیونکہ اگر ذات ِباری تعالیٰ کا یقین ہوتا تو ایسی بددُعا نہ کرتا۔ خلیفۂ وقت کے پاس ٹھہرنے کی وجہ سے اُسے کوئی ایسی حاجت بھی نہ تھی جو جائز ہواور ناتمام رہے۔ حق تعالیٰ خالق ہیں وہ جانتے ہیں کہ بیماری کس درجہ کی ہے اوراس کا صحیح علاج کیا ہے ؟ صحیح علاج عبرت ہے جو سزا یافتہ کو دیکھ کر ہوتی ہے جس کے دل میںچوری کے جذبات ہوتے ہیں وہ آنکھ نہیں میچتا بلکہ وہ اور زیادہ دیکھتا ہے اس لیے دیکھ کر عبرت حاصل کرتا ہے اور گناہ کے ارادہ سے باز آجاتاہے۔قال اللہ تعالیٰ اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئً بِّمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ عَزِیْز حَکِیْم ۔ (پ ٦ ع ٦ ) ''اورچوری کرنے والے مرد اورعورت کے ہاتھ کاٹ ڈالو ۔ ان کی کمائی کی سزا میں اللہ کی طرف سے تنبیہ ہے اوراللہ غالب ہے حکمتوں والا ہے''۔ عزت ِنفس اور پاکدامنی کے طریقے سکھائے گئے ،ارشادہوا :قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ۔(پ١٨ ع ١٠)''ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ ذرا اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اوراپنے ستر کو محفوظ رکھیں ''۔