ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
گئی اوروہیں جل بھن کر رہ گیا ۔سُدّی کہتے ہیں میں نے خود اُس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہو چکا تھا۔ (اُسوہ حسینی ص ١٠١۔ ١٠٢) اللہ کے جو بندے اپنی تکلیف پر اپنا معاملہ اپنے اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے دشمنوں سے شدید انتقام لیتا ہے نہ جا اُس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اُس کی ڈر اُس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اُس کا ہمارے عہد کو بھی ایک''حُسین'' عطا کیا گیا جس کا نسبی وحسبی رشتہ شہید کربلا سیّدنا حسین سے جسمانی ورُوحانی طورپر متصل ہے یعنی شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی قدس سرہ ۔ اِس حسین ِثانی پر مصیبتوں کے بڑے بڑے پہاڑ ٹوٹے لیکن کوہِ عزم و استقلال کو جنبش تک نہ ہوئی ۔ مخالفوں نے کیسے کیسے تیراُن پر برسائے لیکن اُن کا چہرہ متبسم ہی رہا ۔ حریفوں نے طرح طرح کی تکلیفیں دیں لیکن اُن کے لب پر حرف شکایت تک نہ آیا۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز استخلاصِ وطن اورسربلندیٔ اسلام کی جدوجہد میں گزاری ۔انگریز اوراُس کے ''رضاکار '' ہمیشہ اُن کی مخالفت میں زبان درازرہے ،لیکن اس مجاہد ِدین وملت اور غازیٔ سربکف نے آنکھ تک اُٹھا کر نہ دیکھا کہ یہ کوتاہ ِبین وکورباطن کیا کہہ رہے ہیں۔ میدانِ عزیمت کا یہ شہہ سوار محمدی علَم لہرائے آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔ راستے کی تاریکی اُس کے انوارِ شریعت وطریقت سے چَھٹ گئی ۔اُس کا راستہ روکنے والوں کو غبار کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، اورکانٹے بچھانے والوں کو خود اُس راستہ سے گزرنا پڑا۔ ع چاہ کن را چاہ درپیشا یک ہندی دوہا جو غالباً عبدالرحیم خانخاناں کا ہے ،حسبِ حال نظر آتاہے جو تُو کو کانٹا بوئے تاہی بوئے تو پھول تو کو پھول کے پھول ہیں واکو ہیں ترسول ترجمہ : جو تیرے لیے کانٹے بوئے تو اُس کے لیے پھول بو، تیرے لیے تو پھول کے پھول ہیں اوراُس کے لیے تین تین نوک والے کانٹے۔