ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
''چہار شنبہ ٢٨ صفر کو رسول ۖ کے مرض کا آغاز ہوا''۔ (طبقات ابن سعد ص ٢٠٦ مطبوعہ بیروت) مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ''٢٨صفر ١١ ھ چہار شنبہ (بدھ ) کی رات میں آپ نے قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دُعائے مغفرت کی ۔ وہاں سے تشریف لائے تو سرمیں درد تھا اورپھر بخار ہوگیااوریہ بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اوراسی حالت میں وفات ہو گئی''۔ (ملاحظہ ہو'' سیرتِ خاتم الانبیاء ''ص١٤١) علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ''صفر ااھ میں آدھی رات کو آپ ۖ جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا تشریف لے گئے ،وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا۔یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ(بدھ کا دن) تھا ''۔(سیرة النبی ج ٢ ص١٠٥) مشہور مؤرخ علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ''زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کُل تیرہ دن بیمار رہے ،اس بناء پر اگر یہ تحقیقی طورسے متعین ہو جائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ ِآغازِ مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر براویت ِصحیح آٹھ روز (ایک دوشنبہ سے دوسرے دوشنبہ تک )بیمار رہے اور یہیں وفات فرمائی ۔ اس لیے ایامِ علالت کی مدت آٹھ روز تو یقینی ہے۔ عام روایات کی رُوسے پانچ دن اور چاہئیں اوریہ قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لیے تیرہ دن مدتِ علالت صحیح ہے۔ علالت کے پانچ دن آپ نے دوسری ازواج کے حجروں میںبسر فرمائے ۔ اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ)سے ہوتا ہے''۔ (حاشیہ سیرة النبی ج٢ ص١٠٤) فقیہِ وقت حضرت مولانا رشید احمدصاحب گنگوہی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن میں جناب رسول اللہ ۖ کو شدتِ مرض