ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
حالانکہ یہ تمام باتیں من گھڑت ہیں اسلامی اعتبار سے ماہِ صفر کی آخری بدھ کی کوئی خاص اہمیت اور اس دن شریعت کی طرف سے کوئی خاص عمل مقرر نہیں رہے ۔اس سلسلہ میںایک لطیفہ بھی منقول ہے کہ ایک نوابزادے نے اپنے استاد سے اس تاریخ میںعیدی مانگی ۔انہوں نے شعر کے اندازمیں اس عیدی کو بہت اچھے طریقے پررَد کردیا آخری چہار شنبہ ماہِ صفر ہست چوں چہار شنبہ ہائے دِگر نہ حدیثی شد درآں وارد نہ درو عید کرد پیغمبر '' صفر کے مہینے کا آخری بدھ دوسرے مہینوں کے آخری بدھ کی طرح ہے اس بارے میں کوئی خاص حدیث یا واقعہ ثابت نہیں اورنہ ہی اس میں نبی ۖ نے کوئی عید منائی ہے''۔ (زوال السِنة عن اعمال السَنَة ص ٨) بعض لوگ اس دن گھروں میں اگر مٹی کے برتن ہوں تو اُن کو توڑ دیتے ہیں ۔اسی دن بعض لوگ چاندی کے چھلے اورتعویزات بنا کر مختلف مصیبتوں خاص کرصفر کی نحوست سے بچنے کی غرض سے پہنا کرتے ہیں ۔ یہ چیزیں بھی توہم پرستی میں داخل ہیں جس کاذکر پہلے آچکاہے۔ لہٰذا اس دن کاریگر اورمزدوروں کا خاص اہتمام سے چھٹی کرنا بے اصل ہے اورمزدوروں کامالک سے مٹھائی وغیرہ کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں اوراس دن کو دوسرے دنوں کی بہ نسبت زیادہ فضیلت اور ثواب والا سمجھنا بدعت ہے ۔اور اس دن برتن وغیرہ توڑنا اورمصیبتوں اورنحوست سے بچنے کے لیے چھلے اورتعویذ بنانا بھی شرعاً منع ہے کیونکہ یہ سب چیزیں قرآن وسنت ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، ائمۂ مجتہدین اورسلفِ صالحین کسی سے ثابت نہیں ۔یہ سب بعد کے لوگوں کی ایجاد ہے اور اپنی طرف سے دین میں ایک نیا اضافہ ہے جو خالص بدعت اورواجب الترک ہے۔ اس دن آنحضرت ۖ کا غسلِ صحت فرمانا کہیں ثابت نہیں بلکہ اس دن تورحمتِ عالم ۖ کی اُس بیماری کی ابتدا ہوئی تھی جس میں آپ کا وصالِ مبارک ہوا۔ اس بارے میں مسلمانوں کے بڑے بڑے سلسلے اورمکتبۂ فکر کے حضرات متفق ہیں کہ آخری چہار شنبہ (یعنی صفر کی آخری بدھ ) کے روز رحمت ِعالم ۖ کے مرضِ وفات کا آغاز ہوا تھا ۔ چند حوالے جات ملاحظہ ہوں : مشہور مؤرخ ابن ِسعد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :