ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
اس کے بعد تسلسل سے جمعیة علمائِ اسلام کے قائدین کی قیادت میں وطنِ عزیز میں دین ِ اسلام کے تحفظ اور بقا کے حوالہ سے بے شمار خدمات انجام دی گئیں جن کا احاطہ ان چند سطور میں مشکل ہے بطورِ نمونہ مشتے از خروارے چند اُمور ملاحظہ فرمائیں : (١) ٢٩ فروری ١٩٥٦ ء کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا جو ٢٣ مارچ ١٩٥٦ء کو نافذ ہوا، اس دستور کا جمعیة علمائِ اسلام نے تنقیدی جائز ہ لیا، تنقیدات اور ترامیم مرتب کر کے حکومت کو پیش کیں۔ (٢) ١٩٦٢ء میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں'' عائلی قوانین ''کے نام پر خلافِ اسلام قانون کی منظوری دی گئی تو جمعیة علماء کے ممبرانِ اسمبلی نے ا سمبلی میں اور اسمبلی سے باہر جمعیة علماء کے بزرگوں نے صدائے حق بلند کی اور ان قوانین کو چیلنج کیا بالآخر جمعیة علماء کی کوششوں سے عائلی قوانین کی بعض شقوں میں ترمیم کی گئی۔ (٣) مئی ١٩٧٠ء میں جمعیة علمائِ اسلام کی دعوت پر حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کی زیر قیادت لاہور میں اُنیس دینی جماعتوں کا ''متحدہ دینی محاذ'' قائم ہوا، اس اتحاد کی وجہ سے کئی علماء دسمبر ١٩٧٠ء کے انتخابات میں اسمبلی میں پہنچے۔ (٤) یکم مئی ١٩٧٢ء کو حضرت مفتی محمود صاحب اُس وقت صوبہ سر حد اور موجودہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بنے ،آپ نے اپنے وزارتِ علیا کے دور میں مرکزی حکومت کی جانب سے رُکاوٹوں کے باوجود تاریخی کارنامے انجام دیے مثلاً اپنے صوبہ میں شراب سودی لین دین اور جوئے پر مکمل پابندی، جہیز پر ایک حد کی تقرری، جمعہ کے دن سرکاری تعطیل، صوبہ سر حد کی سرکاری زبان اُردو، احترامِ رمضان میں تمام ہوٹلز بند، شلوار قمیض سرکاری لباس مقرر ،کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ کے لیے قرآنِ پاک کی لازمی تعلیم وغیرہ۔ (٥) ١٩٧٣ء میں ایک نئے آئین کی تیاری شروع ہوئی تو جمعیة علماء کے قائدین نے اسلامی قوانین کے لیے آواز بلند کی اور آئین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، اس طرح پہلی بار اسلامی دفعات ملک کے آئین کا حصہ بنیں اور ١٩٧٣ء کا یہ آئین اسلام کے سنہری اصولوں پر بنایا گیا اور جمعیة علماء کی کوششوں