ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
پندرہویں شعبان کے روزہ کا حکم : آنحضرت ۖ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور دُوسروں کوبھی اِس کی ترغیب دیتے تھے،خاص طورپر پندرہویں شب کے روزے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کا یہ اِرشاد منقول ہے کہ''جب شعبان کی پندرہویں شب آئے تو رات کو قیام کرو (یعنی نمازیں پڑھو) اور (اگلے)دن کا روزہ رکھو۔''(اِبن ماجہ)شب ِبراء ت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کن کاموں سے بچنا چاہیے : (١) اِس رات میں قیام کرنا یعنی نوافل پڑھنا مستحب ہے (٢) قبرستان جانا اور مسلمان مرد وزَن کے لیے ایصالِ ثواب کرنا مستحب ہے(٣) اگلے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ اِس شب میں صلٰوة التسبیح پڑھیں،تہجد پڑھیں اور اِس بات کا خاص خیال رکھیں کہ عشاء اور فجر کی نماز ضرور جماعت کے ساتھ اَدا کریں،ایسا نہ ہو کہ نفلوں میں تو لگے رہیں اور فرائض چھوٹ جائیں ۔ حضور علیہ الصلٰوة والسلام اکیلے قبرستان گئے تھے اِس لیے اکیلے جائیں اور صرف مرد جائیں عورتیں نہ جائیں، عورتوں کا قبرستان جانا جائز نہیں ۔ بہترہے کہ شعبان کی ١٣، ١٤ اور ١٥ تینوں دن کے روزے رکھ لیے جائیں اِنہیں'' اَیَّامِ بِیْض'' کہتے ہیں اور اِن دنوں میں روزہ رکھنے کا بہت ثواب ہے۔ اِس شب میں آتش بازی ہرگزنہ کی جائے اِس کاسخت گناہ ہے اور یہ ہندوئوں کا کام ہے نہ کہ مسلمانوں کا،چراغاں نہ کیا جائے کیونکہ اوّل تو یہ شریعت سے ثابت نہیںدُوسرے اِس میں اِسراف ہے، بہت سے لوگ اِس شب میں بجائے عبادت کے حلوے مانڈے میں مصروف ہوجاتے ہیں، شریعت سے اِس شب حلوہ وغیرہ پکانے کا کوئی ثبوت نہیں، بہت سے لوگ مسجد میں اکٹھے ہو کر شوروغوغا کرتے ہیں اِس سے بچا جائے اِس کا سخت گناہ ہے، بہتر یہ ہے کہ نفلی عبادت خُفیہ کی جائے کہ دُوسرے کو پتہ نہ چلے، آنحضرت ۖ اور صحابہ کرام اِس شب میں اِس طرح مسجد میں اکٹھے نہیں ہوتے تھے سب اپنے گھر و ں میںہی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین