ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
تلاوتِ کلام اللہ کے باطنی آداب : تلاوت قرآن شریف کے باطنی آداب پانچ ہیں : اوّل : جس طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال دل میں ہے اِسی طرح اُس کے کلام کی بھی عظمت قلب میں ہونی چاہیے مثلاً جب تم اللہ کی گونا گوں مخلوقات یعنی عرش وکرسی، لوح و قلم ،آسمان وزمین ،حیوان واِنسان، جنات و نباتات اور جمادات کے پیدا ہونے کا تصور کرو گے تو ضرور خیال ہو گا کہ اِس عالم کا پیدا کرنے والا وحدہ لاشریک نہایت زبردست اور ایسا مدبر ہے کہ اُس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں ہے تمام عالَم کی بقا اُسی کے فضل و کرم پر موقوف ہے ایسے شہنشاہِ عالیشان کے فرمان واجب الاذعان(جس کی تعمیل ضروری ہو)یعنی قرآن مجید کی کیا عظمت ووقعت ہونی چاہیے ۔یادرکھو کہ جس طرح اُس کے الفاظ کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت اور وضو کی ضرورت ہے اِسی طرح اُس کے معنی کے دل میں لانے کے لیے قلب کی طہارت اور تمام اخلاقِ رذیلہ سے پاکی لازم ہے پس جو قلب باطنی گندگی اور نجاست میں آلودہ ہے وہ اِس محترم شاہی فرمان کے حقائق کو کیونکر سمجھے گا، یہی وجہ ہے کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ قرآن شریف کھولتے تو اکثر بے ہوش ہوجاتے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ میرے پروردگار جل جلالہ کا کلام ہے۔کلامِ الٰہی کے لباسِ الفاظ میں مستور ہونے کی حکمت : اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے کہ اُس نے اپنے باعظمت کلامِ ازلی کے انوار وتجلیات کو حروف کے لباس میں چھپا کر تمہارے حوالے کیا ہے ورنہ اِس کی نورانی شعاعوں کا کوئی بشر متحمل نہ ہوسکتا ،دیکھ لو کہ طور جیسا پہاڑ بھی کلام الٰہی کی تجلیات کا متحمل نہ ہوسکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اگر اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام کو نہ سنبھال لیتے تو اُن میں بھی حرف اور آواز کے لباس سے خالی کلام الٰہی کے سننے کی طاقت نہ تھی۔(٢) تلاوت میں ترتیل اور معنی کا فہم و تدبر : اگر قرآن شریف کے معنی سمجھ سکتے ہو تو کوئی آیت بھی بلا سمجھے تلاوت نہ کرو کیونکہ ترتیل میں