ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
اور اُس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے موسمِ خزاں میں درخت کے پتے۔ ١ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی درجہ بخشنا چاہتا ہے اور اُس کے عمل اِس قابل نہیں ہوتے توکسی تکلیف یا پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے اُس کو وہ راضی بر ضائِ مولیٰ ہمت حوصلہ اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے تواللہ تعالیٰ کے یہاں وہ اُس بلند درجہ پر فائز ہوجاتا ہے (جو اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے تجویز فرمایا ہے) ۔(ابو داؤد شریف) اور کسی کا یہاں تک درجہ بڑھتا ہے اور گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے کہ یَمْشِیْ عَلَی الْاَرْضٍ مَا لَہ ذَنْب ٢ زمین پر وہ اِس حالت میں چلتا ہے کہ کوئی گناہ اُس کا باقی نہیں رہتا۔ ایک حدیث میں ہے کہ بیماری کے زمانہ کے لیے زمانہ صحت میں توشہ لے لو،اِس کی وضاحت یہ ہے کہ بیماری یا سفر کے باعث اپنے معمولات پر عمل نہیں کر سکا، مثلاً نماز میں جماعت کا پابند تھا یا تہجد کا یا مثلاً پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے کا عادی تھا ،بیماری یا سفر کے باعث وہ اپنا یہ معمول پورا نہیں کر سکا تو نامۂ اعمال میں یہ خانہ خالی نہیں رکھا جائے گا بلکہ عمل کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ ٣دوا اور دُعا : آنحضرت ۖ نے ارشاد فرمایا مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ دَائً اِلَّا اَنْزَلَ لَہ شِفَآئً ٤ ''نہیں نازل کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض مگرنازل کردی اُس کے لیے شفائ'' چنانچہ آنحضرت ۖ نے بہت سے امراض کے علاج اور بہت سی دواؤں کی تاثیریں ارشاد فرمائی ہیں چنانچہ علماء کرام نے طب ِ نبوی پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن آنحضرت ۖ کا اعتماد دوا سے زیادہ دُعا پر تھا کیونکہ جب دینے والا اللہ ہی ہے تواصل چیز دُعا ہوگی، دوا محض ایک بہانہ اور دل کا بہلاوا ہوگا۔ عام طور پر آپ کی دُعا اپنے لیے بھی ہوتی تھی اور جب کسی کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے تب بھی دُعا فرماتے تھے۔ ------------------------------ ١ بخاری شریف کتاب المرضٰی رقم الحدیث ٥٦٤٧ ٢ مشکوة شریف کتاب الجنائز رقم الحدیث ١٥٦٢ ٣ مشکوة شریف ٤ مشکوة شریف کتاب الطب رقم الحدیث ٥٦٧٨