ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
(٣) ہر آیت سے اُس کے خاص مفہوم ہی کی معرفت حاصل ہوگی : اس فہم و تدبر کی حالت مذکورہ میں معرفت الٰہی کی گونا گوں شاخوں سے پھل اور پھول بھی چنتے رہو کیونکہ ہر پھل کے لیے جدا شاخ اور ہر جوہر کے لیے جدا معدن ہے کہ جہاں موتی پیدا ہوتے ہیں وہاں تریاق کا تلاش کرنا فضول ہے اور جہاں مُشک و عود دستیاب ہوتا ہے وہاں موتیوں کی جستجو بے فائدہ ہے اسی طرح قرآن شریف کی آیتوں میں جس قسم کا تذکرہ ہو اُسی قسم کا عرفان حاصل کرنا چاہیے مثلاً جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات یا افعال کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کی معرفت حاصل کرو اور جس جگہ راہِ مستقیم کی تعلیم مذکور ہو وہاں رحمت وکرم اور فضل وحکمت کی معرفت حاصل کرواور جہاں کافروں کے ہلاک کرنے کا بیان ہو اُس جگہ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اور غلبہ و قہر کی صفت معلوم کرو اور جن آیتوں میں انبیاء علیہم السلام کے تذکرے ہوں وہاں سے اللہ پاک کے لطف و احسان کا علم حاصل کرو غرض جیسا موقع ویسا عرفان۔(٤) اِختیاری و سوسے اور اُن کے مراتب : قرآن کا مطلب سمجھنے سے جو اُمور مانع ہیں اُن کو جہاں تک ہو سکے دفع کرو کیونکہ ضعیف الایمان بندوں کے لیے تو خواہشاتِ نفسانی اور وساوسِ شیطانی(جن کو قصدًا دل میں جگہ دی جاتی ہے) حجاب بن جاتی ہے کہ اُن کے نفوس دُنیوی تعلقات سے وابستہ اور اُن کے قلوب شبہات وشک میں ملوث ہوتے ہیں اور یہی قلب کے وہ پردے ہیں جن کے سبب قرآن پاک کی باریکیاں سمجھ میں نہیں آسکتیں لہٰذا اِن کے اُٹھانے کی کوشش ہونی چاہیے اور جن لوگوں کا ایمان قوی ہوجاتا ہے کہ اللہ کی محبت اُن کے قلب میں پیدا ہونے اور اُن کو طاعت میں لذت آنے لگتی ہے اُن پر بھی قلبی وساوس اپنا اثر کرتے ہیں مثلاً نماز کی حالت میں اُن کا دل اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ ہماری نیت کیسی ہے اور جو خلوص شروع نماز کے وقت تھا وہ اب بھی قائم ہے یا نہیں یا مثلاً حروف کے مخارج سے ادا ہونے میں شبہ پڑتا ہے اور آیت کو اِس نیت سے بار بار دہراتے ہیں حالانکہ قلب کے لیے یہ بھی حجاب ہے کیونکہ حروف