ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
اور الفاظ کی درستی کے پیچھے پڑ جانا اور مخارجِ حروف یعنی دانتوں،ہونٹوں،تالو اور حلق کی طرف مشغول ہونا کہ یہ حروف کہاں سے نکلا اور ٹھیک نکلا یا نہیں نکلا ؟ اُن کا کام (یعنی زیادہ اہتمام کچھ تو ضروری ہے) نہیں جن کو عالمِ علوی کی سیروسیاحت اور مَلکوتی اُمور کا مشاہدہ کرنا منظور ہے۔(٥) معرفت کے ساتھ حالت واَثر بھی پیدا کرنا چاہیے : آیات کلام الٰہی سے صرف تجلیات اور معرفت ہی کے حاصل کرنے پر اکتفا نہ کرو بلکہ اِس کے ساتھ حالت اور اثر بھی ظاہر ہوناچاہیے مثلاً اگر ایسی آیت پڑھو جس میں رحمت کا ذکر اور مغفرت کا وعدہ ہوتو جسم پر خوشی اور مسرت کی حالت پیدا ہوجائے اور غیظ و غضب اور عذابِ الٰہی کا تذکرہ ہو توتمہارا بدن لرز اُٹھے ۔اور اللہ تعالیٰ کا نام آوے یا اُس کی عظمت و جلال کا ذکر ہو تو جھک جائو اور ذلت اختیار کرو کہ گویا جلالِ خداوندی کے مشاہدے سے نیست و نابود ہوئے جاتے ہو اور اگر کافروں کی اُس خرافات کا بیان ہو جو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھے ہیں مثلاً مخلوق میں سے کسی کو نعوذ باللہ اللہ کا بیٹا یا بیٹی یا بیوی بتایا ہے تو اُس کی نقل سے بھی شرمائو اور ایسی آیت کی تلاوت میں اپنی آواز کو پست کر دو کہ گویا ان کے الفاظ کا اپنی زبان پر لانا بھی گراں گزرتا ہے۔ غرض جس آیت میں جیسا مضمون ہو اُس کے مطابق ایک خاص حالت پیدا ہو اور جسم پر وہی اثر ظاہر ہو جانا چاہیے کہ خوف کے وقت آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں اور شرم کے وقت پیشانی پر پسینہ آجائے اور ہیبت کے وقت رونگٹے کھڑے ہو جائیں کپکپی چھوٹے اور مژدہ بشارت کے وقت آواز و زبان اور اعضا میں انبساط و بشاشت پیدا ہوجائے۔ (جاری ہے)