ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
عموم پر ہوتی ہے خصوص سے وہ بالا تر ہو ا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنی ذات اور اعزا واقارب کو بھی طرح طرح کی تکالیف میں عام خلائق کے نفع کے لیے مبتلا کردیتے ہیں اور پھر پرواہ تک نہیں کرتے اور جس طرح وہ عموم کے منافع کے درپے ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ کم نفع دینے والی چیزوں اور بے قدر اُمور کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے اُن کا نصب العین روحانی زندگی، روحانی شفا، اخلاقی تہذیب، آخرت کی بھلائیاں خداوندِعالم کا قرب، اس کی خوشنودی، قومی ترقیات وغیرہ وغیرہ اعلیٰ درجے کے اُمور ہوتے ہیں۔ البتہ انبیاء علیہم السلام میں بھی عموم کے درجات متفاوت ہیں ،کوئی نبی فقط اپنی قوم کا مصلح اور طبیب ہوتا ہے کوئی اپنے تمام ملک کا ہمدرد اور ریفارمر ہوتا ہے اور کوئی تمام عالمِ انسانی اور عام خلائق کا حکیم اور بہی خواہ بنایا جاتا ہے، جس پیغمبر میں یہ آخری درجہ عموم کا ہوگا اور جس کی نظر رافت و شفقت اس طرح عام فیض رساں ہوگی بلاشک و شبہ وہ تمام پیغمبروں میں اعلیٰ اور سب کا خاتم ہوگا اُس کے مرتبہ کو نہ کوئی پیغمبر پہنچ سکے گا اور نہ اُس کے حکم سے کسی کو روگردانی کی اجازت ہوگی وہ تمام پیغمبروں میں ایسا عہدہ رکھتا ہوگا جیسا تمام ملازمانِ شاہی میں صدر اعظم کا عہدہ ہوتا ہے جو کہ شاہی قلمرو پر اور تمام شعبہ ہائے حکومت پر حکمراں ہوتا ہے اسی لیے اُس کا زمانہ بھی تمام پیغمبروں کے زمانہ سے اسی طرح آخر میں ہوگا جیسے کہ اپیل صدر اعظم کے دربار میں سب سے آخر میں ہوتی ہے اور اس کے بعد اگر کوئی مرتبہ اپیل کا رہ جاتا ہے تو فقط شہنشاہ کی بارگاہ میں اپیل کا رہاکرتا ہے۔عموم تبلیغ میں مسلمانوں کی خصوصیت : خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسانی طبعی عقلی شرعی جملہ حیثیتوں سے ضروری ہے کہ عام خلائق کی بہبودی کا فکر کیا جائے اور پھر اُس بہبودی اور ہمدردی کوسب سے زیادہ پیش ِ نظر رکھا جائے جوکہ نہایت گراں قدر ہو اور جس قدر ان دونوں امور میں اضافہ ہوگا اُسی قدر خیریت بڑھے گی اور اُسی قدر پروردگار ِ عالم کے یہاں اس کے لیے انعام اور اجر کا استحقاق ہوگا اور یہ فریضہ مسلمانوں ہی کا سب سے بڑا فریضہ ہے کیونکہ جس طرح آخری گورنر اور وائسرائے کاحکم ماننا ضروری سمجھا جاتا ہے (باقی صفحہ ٦٤ )