ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
دوسری وجہ : جبکہ حسب ِ تعلیمات ِاسلامیہ تمام افراد انسانی ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی اولاد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مقتضیات ِطبعیہ اور صورت و سیرت میں سب ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اس لیے جس طرح اپنے حقیقی بھائی کے ہم پر حقوق ہیں اور انہی کی بناپر ہمارا طبعی اور عقلی فریضہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کی ہر طرح ہمدردی اور مدد کریں اسی طرح ہمارا طبعی اور عقلی فرض ہوگا کہ اپنے ہر بھائی انسان کی ہمدردی کریں اور اُس کو آخرت کے عذاب سے نجات دلانے کی، اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی خوشنودی تک پہنچانے کی، نعم ِابدی اور روحانی زندگی کے حاصل کرانے کی ہر ممکن کار روائی سے دریغ نہ کریں۔تیسری وجہ : اگر ہر ڈاکٹر ہرحکیم ہر وَید کا فرض ہے کہ کسی مبتلائے امراضِ جسمانی کو دیکھ کر اُس کا علاج کرے توہرحکیم ِروحانی کا فرض ہوگا کہ روحانی مریضوں کے علاج معالجہ میں کوتاہی نہ کرے مگر جس طرح جسمانی امراض کے مراتب کی حیثیت سے جسمانی ڈاکٹروں اور حکیموں وغیرہ کے فرائض میں فرقِ مراتب ہوتا ہے اسی طرح روحانی امراض کے مراتب کی حیثیت سے روحانی حکیموں کے فرائض میں فرق ہوگا، جو رُوحانی امراض روحانی زندگی کوفنا کرنے میں ویسا ہی مرتبہ رکھتے ہیں جوکہ طاعون، ہیضہ، سِل ١ وغیرہ جسمانی امراضِ مہلکہ جسمانی زندگی کے فنا کرنے میں رکھتے ہیں ،ان کے دفع کرنے میں ان کا فریضہ نہایت ہی اَکْیَد اور شدید ہوجائے گا اسی وجہ سے اسلام جو کہ حقیقی معنوں میں کامل اور مکمل مذہب ہے اس اعلیٰ درجہ کی عام ہمدردی کا بہت زور و شور سے مؤید ہے فرمایا جاتا ہے ( وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّة یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ٢ ''چاہیے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت (ہمیشہ کے لیے) ہوجائے جوکہ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی رہے اور عمدہ باتوں کا لو گوں کو حکم کرے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ '' ------------------------------ ١ تپ ِ دق، ٹی بی ٢ سُورہ الِ عمران : ١٠٤