ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا، بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ١٩٥٦ء کے آئین سے لے کر ١٩٧٣ء کے آئین کی منظوری تک کوئی بھی ایسی اسلامی شق نہیں ہے جو جمعیة علمائِ اسلام کی کوششوں کے بغیر آئین کا حصہ بنی ہو۔ (٦) ١٠ اپریل ١٩٨٣ء کو یہ آئین اسمبلی سے منظور ہوا اور اس آئین نے ملک میں کسی بھی غیر اسلامی قانون یا شق کے راستے بند کردیے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس آئین نے مسئلہ ختم ِ نبوت کے محاذ پر بھی قانونی بنیاد فراہم کی۔ (٧) مئی ١٩٧٤ء میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کی قیادت میں تحریک ِ ختم ِنبوت چلی تو اسمبلی میں مسئلہ ختم ِ نبوت کے لیے آواز اُٹھانے والوں میں قائد جمعیة حضرت مفتی محمود صاحب کانام سرفہرست ہے، مفتی محمود صاحب نے گیارہ دن لگاتار مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوت ِ نبوت پر جرح کی اور مرزا ناصر کے استدلالات کے جوابات دیے بالآخر ٧ ستمبر ١٩٧٤ء کو مرزا قادیانی اور اُس کے پیروکاروں کو آئین ِپاکستان کی رُو سے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ (٨) جولائی ١٩٧٧ء میں جب ضیائی آمریت نے شب خون مارا تو اس کے بعد بحالی ِ جمہوریت کے لیے اوّلاً مفتی محمود صاحب اور آپ کے انتقال (١٤ اکتوبر ١٩٨٠ئ) کے بعد آپ کے فرزند ِ ارجمند حضرت مولانا فضل الر حمن صاحب مدظلہم نے آپ کے مشن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بحالی ِ جمہوریت کی جدو جہد کے تسلسل کو بر قرار رکھا اور مارشل لاء کے خلاف اس تحریک میں وقتا فوقتا مختلف شہروں میں تقریبًا ساڑھے چار سال قید و بند کی صعوبت برداشت کی۔ (٩) ضیائی آمریت کے دور میں ایم آر ڈی کی تشکیل بھی جمعیة علمائِ اسلام کا زریں کارنامہ ہے ،یہ وہ دور ہے جس میں جمعیة علماء کا نام لینا اور اس سے وابستہ رہنا کارِ دُشوار تھا اس پُر آشوب دور میں بانی جامعہ حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کو جمعیة علمائِ اسلام کا امیر منتخب کیا گیا آپ تا حیات اس منصب پر فائز رہے ، اللہ جزائے خیر دے حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب کو کہ اِس کڑے اور مشکل دور میں آپ نے جہاں جمعیة کی بے مثال قیادت کی وہیں آپ نے مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کے سر پر دست ِ شفقت رکھا، جمعیة علمائِ اسلام کا مرکزی دفتر جامعہ مدنیہ میں