ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
طور پر بائیس نکات کو متفقہ طور پر مرتب کرکے حکومت ِ پاکستان کو پیش کیا پھر کچھ ہی عرصہ بعد ١٩٥٣ء کی ''تحریکِ ختم ِ نبوت ''چلی، اس تحریک میں ایک ہزار مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور دس ہزار سے زائد مسلمان قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے، تحریک کے خاتمہ کے بعد ملک کا سیاسی نقشہ بدل گیا، بزرگانِ دین گوشہ ٔ عافیت میں چلے گئے اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے اور وطنِ عزیز کی دینی قیادت دین دشمن عناصر کے ہاتھوں میں جانے لگی تو اللہ تعالیٰ نے غیبی نظام کچھ یوں مہیا فرمایا جسے یادگارِ اسلاف مولانا محمد عبد اللہ صاحب (بھکر) نے اس طرح محفوظ فرمایا ،مولانا محمد عبد اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں : ''١٩٥٥ء کے اَواخر یا ١٩٥٦ء کے اَوائل کی بات ہے حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب (خانقاہِ سراجیہ)نے حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی کو اچانک اُن کے وطن سے بلایا اور سیاست کے میدان میں کام کرنے کی ضرورت بیان فرمائی اور اِس کے لیے عملی شکل اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا، تقریبًا یہی دن تھے کہ حضرت مولانا سیّد امیر حسین شاہ صاحب گیلانی مد ظلہم العالی بانی و مہتمم جامعہ مدنیہ اوکاڑہ ہندوستان گئے ہوئے تھے تین چار مہینے دیوبند میں رہے تھے حضرت مدنی سے واپسی کے لیے رخصت ہونے لگے تو حضرت نے دریافت فرمایا کہ وہاں علماء کا کیا حال ہے ؟ شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ! علماء تحریک ١٩٥٣ء میں پس گئے ہیں اُن میں اُٹھنے کی سکت نہیں رہی، حضرت نے فرمایا : '' اُٹھیں گے نہیں تو ختم ہوجائیں گے اُنہیں کہو کہ اُٹھیں کام کریں '' ان دونوں بزرگوں کے اِس توارد اور فرمان کے نتیجے میں اکتوبر ١٩٥٦ء میں ملتان میں علماء کنونشن ہوا، جمعیة علماء اسلام کی تنظیمِ نو ہوئی، حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کی امارت اور حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی کی نظامت میں کام کا آغاز ہوا۔ '' (شیخ الاسلام حضرت مدنی کا مختصر تذکرہ ص١ ٩،٩٢)