ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
آنحضور ۖ کا اِرشاد ہے : ''اِنسان کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے بدن سیدھا رہ سکے، اگر کچھ زیادہ ہی کھانا ہو توشکم کے تین حصے کر کے ایک حصہ میں کھانا کھائے، دُوسرے حصہ میں پانی پیے اور تیسرے حصہ کو سانس کے لیے رہنے دے۔'' دُوسرا حکیمانہ اِرشاد نبوی ۖ ہے کہ ''انسان سب سے بُر ابرتن جو بھرتاہے وہ پیٹ ہے'' ہر سال ایک ماہ تک روزے رکھنے اور کھاتے وقت اعتدال پر رہنے سے سال بھر کی بے اِعتدالی سے بدن کی صحت کا بگڑا ہوا توازن درست ہوجاتاہے اور بھی نہ جانے کتنے ایسے اَسرار اَور رموز ہیں جو اب تک اَطباء اور ڈاکٹروں کی نگاہوں سے مخفی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے بیماری نازل کی اور اُس کا علاج بھی بتلادیا۔ تہذیب ِ نفس اوررُوحانی اِرتقاء کے لیے توصوم نے بڑی بڑی وسعتیں پیدا کردیں چنانچہ اِرشادات ِ رسالت ۖ کا ایک ذخیرہ اِس باب میں موجود ہے ،اِرشاد ہے : ''اے جوان لوگو ! تم میں سے جو کوئی اخراجاتِ ضروریہ کی کفالت کر سکتاہے تو ضرور شادی کرنی چاہیے کیونکہ اس سے نگاہ اور شرمگاہ کی معصیت سے بچ جائے گا اور جو کوئی کفالت کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھ لے، یہ اُس کے لیے معصیت سے بچاؤ کا ذریعہ ہوگا۔'' دُوسری جگہ اِرشاد ہوا : ''جو روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے کچھ حاصل نہیں۔'' کیونکہ روزے کا مقصد ہی تہذیب ِ نفس اور تہذیب ِاخلاق ہے اور بھی بہت سی احادیث رسول ۖ موجود ہیں جو روزہ دار کو زبان و دل اور عمل کی تطہیر پر تنبیہ کرتی ہیں۔ روزہ ایک طرف نفس ِانسانی کو شدائد و محن کا خوگر بناتا ہے تو دُوسری طرف رحم و مروّت اور