ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
کون سی چیز ایسی ہے جس کا پریشر تولنے کی اکائی نہ ہو،میزان ہر ایک کے مختلف ہیں اس لیے آپ ہیوی چیز منگائیں گے اُس کا بھی وزن ہوگا اور بیماری کا وزن ہوجاتا ہے بتا دیا جاتا ہے کہ اِس کا کس درجہ کا بخار ہے کس درجہ کا نہیں ہے، اب تو یہ مسائل رہے ہی نہیں، پہلے زمانے کے تھے جب ترقی نہیں ہوئی تھی اب تو ترقی ہو چکی۔ میں نے بہت مطالعہ کیا ہے اب میری آنکھیں بالکل جواب دے گئی ہیں تو میں نے بس مکی زندگی ہی تک لکھا ہے مدنی زندگی پر تو بہت کچھ ہے بہت کچھ لکھا گیا ہے ،مکی زندگی پر لکھنا بہت مشکل کام ہے کسی نے اِن چیزوں کواُجاگر نہیں کیا حالانکہ یہ بہت ضروری تھا، یہ بات آگئی ہے سمجھ میں تو اب آپ کے لیے آگے چلنا بہت آسان ہو جائے گا تو یہ سب وہی نصابی کتابیں ہیں جو مدوّن ہوتی گئیں صرف محدثین پہلے یہ کرتے تھے کہ غیر مرتب ........ ان کے ہاں ترتیب صحابہ کے ناموں پر ہوتی تھی تو کوئی حدیث کہیں آئی کوئی حدیث کہیں، زکوة کی حدیثیں کہیں ملیں گی کوئی مرتب ہے کوئی غیر مرتب ہے، یہ فقہی احکام ہیں فقہاء نے چونکہ حکم لگانا ہے تو انہوں نے احکام کو مرتب کیا وضو کے احکام علیحدہ، فلاں کے احکام علیحدہ فلاں کے علیحدہ اب مواریث تک پہنچادیا فقہاء نے، زندگی کے ہر شعبے کا حکم بتا دیا انہوں نے اور جو نت نئے مسائل آتے ہیں وہ ان ہی تین چیزوں(قول، فعل، سکوت) میں تلاش (اجتہاد ) کر کے نکالتے ہیں، اختلافِ نظرضرور ہوتا ہے اور یہ اختلافِ نظر کوئی نئی چیز نہیں ہے حضور ۖ کے زمانے میں بھی ہوتا تھا ،وہ جب آندھی آگئی تھی اور غزوہ خندق میں حضور ۖ بے حد پریشان تھے آپ نے اُن کفار سے معاہدہ کر نے کے لیے اُنہیں سو دو سو دینے کے لیے تیار ہوگئے تھے، آخر انصار سے فرمایا کہ بھئی کیا دیا جائے انہیں ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم تو اُن کو کبھی اچھی کھجور بھی نہیں دیتے تھے ردی کھجوریں دیتے تھے ،ہم اِن کو یہ بھی نہیں دیں گے تو آپ نے فرمایا کہ بس اب کوئی پرواہ نہیں ہے اب اس طرح ہے کہ تلوار ہی فیصلہ کر ے گی تو آندھی آگئی تووہ بھاگ گئے سب۔ تویہ سب فقہاء کا کام ہے، فقہاء کا درجہ بہت بلند ہے ان کے لیے سہولت بہت ہے اس لیے کہ وہ اجتہاد کر کے مسائل کا استنباط کر لیتے ہیں اور اُمت کو گمراہی سے بچالیتے ہیں مگر یہ مجتہدین کا کام ہے