ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
یہ ہے اس کا کرشمہ اس نصاب کا۔ یہ سب چیزیں حضور ۖ کی ہیںاسی سے ساری فقہ مدون ہوئی ہے اب آپ اطمینان سے سمجھ جائیں گے بات کو۔ تویہ درسی کتابیں ہیں جوخیرا لقرون کے بہت بعد میں لکھی ہوئی ہیں۔ تو خیرا لقرون کا زمانہ جو ہے بہت اہم ہے اسی لیے اِمام مسلم نے چیلنج کیا ہے وہ کہتے ہیںکہ وہاں امکانِ لقاء ہے خیر القرون میں، تم کیا کر رہے ہو یہ شرطیں لگاکے، جب اتصال کی ایسی شرطیں لگاؤ گے توپھر ''بقرہ'' ایک ہی ملے گی کہ قربانی ایک گائے کی کرو، دیکھو پھر ملی نہیں ہے نا ،جتنی شرطیں لگاؤگے اُتنی ہی مصیبت آئے گی تو یہ نصاب اگر آپ کے ذہن میں ہوگا تو آپ بہت آسانی سے حدیث کو سمجھ سکتے ہیں، یہ احادیث جتنی بھی ہیں اُن میںیہی اقوال افعال احوال یہ سب چیزیں مذکور ہیں سارا یہ نصاب ہے، ساری فقہ کی تاریخ بھی آپ کی ذہن میں آجائے گی اور ان سب چیزوں کوآپ سمجھ جائیں گے۔ ہمارے ہاں مکی زندگی پر کچھ نہیں لکھا گیا اس طرح سے ،میں بے حد پریشان تھا میں نے ''عباسی عہد'' لکھا پھر اُس کے بعد ''اُموی دور'' لکھا اور جو آیا یہ دور تو میں نے کہا بھئی یہ تو پورا دیکھنا ہے مجھے، میں بہت غور کرتا رہا سوچتا رہا تواللہ نے مجھ پر یہ راز کھولاہے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو بتائے مجھے، میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول کی رسالت تو دائمی ہو اور نصاب ِ تعلیم نہ ہو، یہ ہے اس کا سارا نصاب ِ تعلیم، یہ ساری فقہ ہے اوراِمام ترمذی نے کہہ دیا ہے کہ اَلْفُقَہَائُ اَعْلَمُ بِمَعَانِی الْحَدِیْثِ معانی حدیث کو غیر فقیہ نہیں سمجھتا ،ہیں تو نابینا لیکن بینا کرکے گئے ہیں سب کو۔ اب آپ اپنے سبق کی طرف آسکتے ہیں کہ اس میں یہ آخری حدیث ہے، پہلی حدیث جو تھی اُس میں اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ کا مسئلہ آچکا ہے آپ کے ہاں کہ کوئی چیز اخلاص کے بغیر قابلِ قبول نہیں ہوگی، شرطِ اوّل یہ ہے کہ جو عمل ہو وہ اخلاص پرمبنی ہونا چاہیے، اللہ کی رضا کے لیے ہوگا جو کام بھی ہوگا تب قابلِ قبول ہوگا۔ اب اس کے آخر میں بتا دیا کہ دیکھو یہ تین باتیں ہیں : اب یہ بحثیں کرنا کہ وزن کیسے ہے اور تولتے کیسے ہیں ؟ اب آج کل توجناب ہر چیز تلتی ہے آنکھ کا پریشر وہ بھی تل کے آجاتا ہے کہ کتنا ہے