ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
فرمایا وہ تومکمل ہو چکا اُس میں توکمی بیشی ہوگی نہیں، تو فرمایا میں آپ کی سنت سے اور آپ کے اقوال سے فیصلہ کر لوں گا،آپ نے فرمایا میں بھی اب جانے والا ہوں وہ بھی محدود ہے'' حوادث'' اور ''شریعت'' تو دائمی ہے تو یہ کیسے حل کرو گے ؟ تو فرمایا کہ جو میں نے آپ سے سیکھا ہے یعنی ''اجتہاد''تو یہ اجتہاد جو ہے یہ ہے شریعت کی بقاء کا ذریعہ قیامت تک کے لیے اس لیے اِس کو دوام حاصل ہے اسی وجہ سے مجتہد کو خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے ورنہ وہ اجتہاد کرے گا کیوں ، اس کا معنی یہ ہے کہ مجتہد کی خطا بھی قابلِ قبول ہے بشرطیکہ اُس کو ملکہ فن ١ حاصل ہو چنانچہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ حضور ۖ نے جن لوگوں کی تربیت کی وہ سب فقہاء تھے اُن کی تعداد تو کم ہے لیکن ہیں، جب حضور اکرم ۖ نے مکی زندگی میں ان لوگوں کو تیار کر لیا (اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ) اس کا پیریڈ تیرہ سال کا ہے اِس میں اُنہوں نے اسلام کو مدینہ تک نہیںجانے دیا سارا زور لگا لیا اور حضور اکرم ۖ نے کیسی کوشش فرمائی کہ اُس دور میں جب یہ ظلم و ستم ڈھایا جاتا تھا رسول اللہ ۖ نے دین اِسلام کو پیش کیا ایسے کہ افریقہ میں پہنچادیااور حبشہ میں پہنچ گیا اسلام۔ دیکھا آپ نے مکی زندگی کا ،کیسی تربیت کی اور جب کبھی بلایا(کسی نے کہ) اب ہمیں ضرورت ہے جب حضور مدینہ تشریف نہیں لے کرگئے صرف جو وفود آئے تھے اُن کو اِسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمیں چاہییں آدمی ،بھیجئے ہمارے پاس، حضور علیہ السلام کے پاس ٹرینڈ افراد تھے، فورًا حضور علیہ السلام نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جائیے، وہ تشریف لے گئے تو اُن کو ہدایت لکھی اَنْ یُّقْرِأَھُمُ الْقُرْآنَ وَ یُفَقِّھَھُمْ کہ آپ کایہ کام ہے وہاںبیٹھ کر یہ کام کیجئے ، قرآن پڑھائیے اور فہم ِ دین سکھا ئیے یعنی ''فقہ'' تو اِسی لیے دیکھئے تر مذی نے یہ کام کیا ہے، تھے تو وہ نابینالیکن سب کو بینا بنا گئے وہ، اُنہوںنے کہا ہے کہ معانی حدیث کو فقہاء کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھتا اَلْفُقَہَائُ اَعْلَمُ بِمَعَانِی الْحَدِیْثِ کہ فقیہ ہی اِس کی ترجمانی کرے گا بس۔اسی لیے حضور ۖ نے فرمایا تھا تم حدیث کو پہنچا تے رہو فقیہ تک وہ اس سے اُٹھائے گا فائدہ تم نہیں اُٹھا سکتے ، تمہارا کام کیا ہے کہ تم اِس کو ------------------------------ ١ علم و فقہ پر کامل عبور ہو۔