ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
یہ '' مُیَسِّرْ '' ١ کالفظ اُس وقت آیا ہے جب حضور اکرم ۖ اُوپر تشریف لے گئے تھے ازواجِ مطہرات نے کہا تھا کہ ہمیں بھی کچھ ملنا چاہیے ، تو آپ اُوپر تشریف لے گئے چھت کے اُوپر کمرے میں بیٹھ گئے تھے تو اُس کے اندر یہ لفظ آیا ہے تو رسول اللہ ۖ کی صفت ''معلم ''قرآن نے بتائی ہے ۔ اب کفار کا قول سنیے ( وَقَالُوْا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا ) توکیا یہ (بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا ) نہیں ہے ؟ صبح شام کالج ؟ تو یہ شہادت کن کی ہے ؟ مشرکین کی ہے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تو یہ وظیفہ اختیار کررکھا ہے دن رات و ہی داستانِ قرآن ہی سناتے رہتے ہیں ڈراتے ہیں صبح بھی اور شام بھی، تو رسول اللہ ۖ کا نصاب کیا ہے ؟ وہ بھی آپ سمجھ لیجیے بہت آسان ہے حضور ۖ کا خود اِرشاد ہے 'قول' ہے 'فعل 'ہے اور' سکوت' ہے یا' انکار' ہے، فرمایا دیکھیے حدیث میں ''صَلُّوْا '' اَمر ہوا کہ نہیں ہوا ''قول'' ہوا کہ نہیں ہوا، کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ '' اُصَلِّیْ '' فعل ہوا، فعل ہی ہے نا یہ، ایسے ہی نماز پڑھو جیسے میں نماز پڑھتاہوں اور پھر تیسرا سکوت یا انکار ،فرمایا ایک صحابی پڑھ رہے تھے نماز،وہ نماز پڑھتے ہوئے حضور ۖ کو سلام کر رہے ہیں ........وہ پھر پڑھ کر آگئے پھر حضور ۖ کو سلام کیا پھر آپ نے فرمایا جائو واپس او ر نماز پڑھ کر آئو وہ پھر نماز پڑھ کر آگئے تیسری مرتبہ بھی یہی فرمایا، تو تیسری مرتبہ اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ میں جتنی اچھی پڑھ سکتا تھا نماز ادا کر سکتا تھا میں پڑھ کے آگیا آپ فرمائیے کہ مجھ سے کیا کوتاہی ہوئی، آپ نے فرمایا تم سے ''اعتدال'' چھوٹ گیا تھا اس میں اعتدال ہے، یہ ہے رسول اللہ ۖ کا نصاب اور اس پر عمل کرایا ہے رسول اللہ ۖ نے اور رسول اللہ ۖ کا یہ نصاب دائمی ہے جیسے رسالت دائمی ہے ایسے ہی یہ نصاب بھی دائمی ہے قیامت تک کے لیے۔ یہی بات آپ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے کہی تھی اور اُنہیں سمجھایا تھا کہ دیکھو حوادث پیش آئیں گے توتم کیسے فیصلہ کروگے ؟ اُنہوں نے فرمایا میں قرآنِ مجید سے فیصلہ کروں گا،آپ نے ------------------------------ ١ آسانیاں فراہم کرنے والا