ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
یقینا ایک شخص گھر بیٹھے بیٹھے بھی پوری جماعت کو چلا رہا تھا اور فیلڈ میں جو ساتھی کام کررہے تھے جو متحرک ہوتے تھے اُن کو طلب کرنا اُن سے تمام رپورٹ لینا اُن کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا اُن پر سر زنش کرنا نئی ہدایات دینا، یہ طویل کئی سالوں پر محیط ایک سفر ہے جس کا میں ذاتی طور پر مشاہد ہوں میرے ہی مشاہدہ میں ہوسکتی ہیں وہ ساری باتیں ۔ '' ١ بہرحال ضیائی مارشل لاء کے دور میں جمعیة علمائِ اسلام نے تحریک بحالی ِجمہوریت (ایم آر ڈی) کے دوران بے مثال جدو جہد جاری رکھی۔ (١٠) ١٩٨٨ء کے انتخابات میں جمعیة علمائِ اسلام کو دو سو سات ارکانِ ایوان میں سے صرف آٹھ افراد کی سیاسی قوت حاصل تھی اور جمعیة علمائِ اسلام اپوزیشن میں شامل تھی، ١٩٩٠ء کے انتخابات میں جمعیة علمائِ اسلام چھ نشستوں پر کامیاب تھی ،١٩٩٣ء کے انتخابات میں جمعیة علمائِ اسلام کو چار نشستوں پر کامیابی حاصل تھی اس موقع پر نواز شریف صاحب کے سابقہ روّیوں بالخصوص سود کو تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے جمعیة علمائِ اسلام نے مسلم لیگ کو وزارتِ عظمیٰ کا ووٹ دینے سے انکار کردیا اور پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ نہیں دیا بلکہ وزارتِ عظمیٰ کا ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا،یہ ایک بہت بڑی تاریخی یادگار ہے۔ ١٩٩٧ء کے انتخابات میں بھی جمعیة علمائِ اسلام کے ارکان پارلیمنٹ میں پہنچے،١٩٩٩ء میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ٢٠٠١ ء میں بلدیاتی انتخابات اور ٢٠٠٢ء میں عام انتخابات کے نتیجہ میں صوبہ سر حد میں ایم ایم اے کی حکومت بنی اُس صوبائی حکومت کے نمایاں ترین کاموں میں شریعت بل کی منظوری،'' حسبہ بل''، میٹرک تک مفت تعلیم کا انتظام ،شراب پر مکمل پابندی، اُردو زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا نوٹیفکیشن، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، قیامِ امن کے لیے مؤثر اقدامات ، خواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ ٢٠٠٨ء کے انتخابات میں جمعیة علمائِ اسلام واحد مذہبی جماعت کے طور پر پارلیمنٹ میں پہنچی ------------------------------ ١ ماہنامہ انوارِ مدینہ ج ١٣ شمارہ ٩ ص ٣٠