استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
مانگو، اگر مال لیا ہے تو مال واپس کرو، غیبت کی ہے تو اگر اس کو اطلاع ہوجائے تب اس سے معافی مانگنا ضروری ہے۔جیسے ری یونین میں آپ نے کسی کیپ ٹاؤن والے کی غیبت کی تو اب کیپ ٹاؤن جاکر اس سے معافی مانگنا واجب نہیں ہے، جب تک کہ آپ کو یقین نہ ہو جائے کہ میری غیبت ان کو معلوم ہوگئی، جب غیبت کا علم ہوگا تبھی تو اس کو تکلیف ہوگی اور اس کا حق بنے گا، جب اس کو خبر ہی نہیں ہوگی تو اس کا حق نہیں بنا، اب جس مجلس میں غیبت کی ہے وہاں تردید کردو کہ ہم سے غلطی اور نالائقی ہوگئی، جن لوگوں کے سامنے اس کی آبرو کو نقصان پہنچایا ان سے کہہ دو کہ بھئی ہم نے بہت بے وقوفی اور نالائقی کی، معلوم نہیں اللہ کے یہاں ان کا کیا درجہ ہے۔ جس کی بھی غیبت کو دل چاہے فوراً مراقبہ کرو کہ ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ کے یہاں مقبول ہو اور اپنے لیے یہ سوچو تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللہِ عَظِیۡمٌ 6؎ کہ ہوسکتا ہے ہمارا کوئی عمل ایسا ہوگیا ہو کہ ہم نے اس کو معمولی سمجھا ہو اور وہ اللہ کے یہاں عظیم گناہ ہو۔اس مراقبہ سے آپ اپنے کو کسی سے بہتر نہیں سمجھیں گے اور کسی کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھیں گے اور اللہ کو اپنے بندوں کی یہی ادا پسند ہے کہ میرا بندہ کسی بندے سے اپنے کو بہتر نہ سمجھے اور کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھے، یہی تصوف ہے اور یہی تعلق مع اللہ کی حدود ہیں اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے طریقے ہیں۔ جس کو یہ سب فکر نہ ہو پھر وہ سالک نہیں جانور ہے۔ اصلی پاسِ انفاس کیا ہے؟ اﷲ کا راستہ بہت حسّاس اور نازک ہے کیوں کہ سالک کی ہر وقت اللہ پر نظر ہوتی ہے کہ میرا کوئی کام ایسا نہ ہو کہ جس سے اللہ پاک ہم سے ناراض ہو جائے، جس کو خوفِ ناراضگی اور خوفِ یَجُوْزُ وَ لَایَجُوْزُ نہ ہو وہ عجوز ہے یعنی بڑھیا ہے۔ سلوک اس کا نام ہے کہ ہر وقت چوکنا رہو کہ کوئی نامناسب حرکت نہ ہو جائے، ہر سانس پاسِ انفاس حاصل ہو،اصلی پاسِ انفاس یہی خوف ہے، پہلے زمانے کے بزرگوں نے جو پاسِ انفاس بتایا تھا وہ اب اس زمانے میں جائز نہیں ہے اور یہ عدمِ جوازِ حکم شریعت نہیں ہے، یہ حکم طریقت ہے کیوں کہ اِس زمانے _____________________________________________ 6؎النور:15