استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
( ماریشس کے جنگل میں ) دیکھو!یہ عورتیں جو انتہائی خراب لباس پہنے پھر رہی ہیں ان کو یوں سمجھو جیسے گوبر کے اوپر سونے کا ورق لگا ہوا ہے، ان کی طرف جاؤ بھی مت، اپنے قلب کو بچانے کے لیے ان کی طرف تصور بھی مت لے جاؤ، ان کو دیکھو بھی مت۔بس جو سانس اللہ تعالیٰ کی یاد میں اور تقویٰ سکھانے میں گزر جائے یہ گھڑی افضل ہے، جو گھڑی جنگل میں خدا کا خوف اور تقویٰ سکھانے میں اور گناہ سے بچنے کی وفاداری سکھانے میں گزر جائے وہ گھڑی افضل ہے۔ اگر کسی فیکٹری کا ملازم مزدوروں کو مالک کے ساتھ وفاداری سکھا رہا ہو تو مالک کہے گا کہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھو، اس کی شادی بیاہ بھی کرادو، اس کا مکان بھی بنوا دو۔تو حق تعالیٰ ایسے بندوں کو کتنا دے گا جو اللہ تعالیٰ کے غلاموں کو مالک کی وفاداری سکھارہے ہیں اور بے وفائی سے حرام لذّت کی امپورٹنگ کو منع کررہے ہیں۔ اﷲ کا اصلی بندہ وہ ہے جو عظمتِ الٰہیہ سے دبا ہوا ہو، عظمتِ الٰہیہ کا ہر وقت ایسا استحضار ہو جیسے سر پر پہاڑ رکھا ہوا ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ جب عظمتِ الٰہیہ غالب ہوگی تو نماز میں مزہ بڑھ جائے گا، وہ نماز میں دبا کھڑا ہے، رکوع میں دبا جھکا ہے، سجدہ میں دبا پڑا ہے۔ یہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کے جملے ہیں کہ اللہ کی عظمت کا ایسا غلبہ ہے کہ کھڑا ہوا ہے تب بھی دبا ہوا ہے، دبا کھڑا ہے اور رکوع میں عظمتِ الٰہیہ سے دبا جھکا ہے اور سجدہ میں دبا پڑا ہے۔ اولیائے صدیقین کا مقام میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ اس زمانے کے صدیقین میں سے تھے۔ میں نے حضرت کو دیکھا کہ ہمیشہ نظریں جھکا کر چلتے تھے، بس تھوڑا سا سامنے دیکھتے تھے نہ اِدھر دیکھتے تھے نہ اُدھر، یہ میرا دس سال کا مشاہدہ ہے، حضرت جس بازار سے لاکھوں دفعہ گزرے کبھی نہیں دیکھا کہ یہ مٹھائی کی دکان ہے یا کپڑے کی، ہمیشہ باوضو تلاوت کرتے ہوئے بخاری شریف پڑھانے مدرسہ جاتے تھے، حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ کبھی کبھی مجھ پر ایسی کیفیت