استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
استحضارِ عظمتِ الٰہیہ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ 1؎عشق و محبت بھی تابع شریعت ہو یہ حدیثِ پاک کی دعا ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے کہ یااللہ! ہمارے دل کے وسوسوں کو اپنا خوف اور اپنی یاد بنادے۔ اس دعا میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کو اﷲ کی یاد پر کیوں مقدم فرمایا؟ کیوں کہ جہاں یاد ہوتی ہے مگر خوف کم ہوتا ہے تو آدمی حدودِ شریعت سے نکل جاتا ہے،یہ جتنی بدعات ایجاد ہوئیں اس کی وجہ یہی ہے کہ عشق کا غلبہ ہوگیا اور خوف کم ہوگیا حالاں کہ عشق پابندِ خوفِ خدا ہے، وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی 2؎ عشق دوڑاتا ہے، عشق رفتار کو تیز کرتا ہے، جب عاشق اپنے محبوب کے پاس جاتا ہے تو اس کی رفتار میں تیزی آجاتی ہے، وہ یَمْشِیْ نہیں ہوتا، یَسۡعٰی ہوتا ہے یعنی دوڑتے ہوئے آتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی چال میں عشق کی وجہ سے تیزی تھی، سَعٰی میں اور مَشٰی میں فرق ہے، سَعٰی میں آدمی جھپٹ کے چلتا ہے، عشق رفتار کو تیز کرتا ہے لیکن آگے ہے وَ ہُوَ یَخۡشٰی 3؎ اور وہ ڈرتے ہوئے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا حال ان کے ذوالحال کے لئے نازل فرما دیا کہ اپنے بزرگوں کے پاس جب تک رہو تو خوف بھی رہے، خوف _____________________________________________ 1؎الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی:474/1(1930) ،المعاصر 2؎عبس:8 3؎عبس:9