استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک قطرہ اگر ہوتا تو وہ چھپ بھی جاتا کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا دریائے خون کو مٹی کیسے چھپاسکتی ہے۔ اے حاسدین! تمہاری مٹیاں دریائے خون کو کیسے چھپاسکتی ہیں۔ کبھی تڑپتے ہوئے دل سے سجدہ میں اللہ سے رو لو کہ یا اللہ! قیامت کے دن رُسوا نہ فرمانا، معافی مانگ لو، ان شاء اللہ دیکھو پھر کیا ملتا ہے، آپ کو دل میں پتا چل جائے گا کہ میری معافی ہوگئی، دل میں ٹھنڈک آجائے گی، دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی کہ میں نے تم کو معاف کردیا مگر اس آواز میں حروف نہیں ہوں گے، اللہ کی آواز محتاجِ حروف نہیں ہے، بس دل میں ٹھنڈک آجائے گی اور اطمینان اور سکینہ نازل ہو جائے گا اور معلوم ہوجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کو ہم پر رحم آگیا۔ اس پر میرا شعر دیکھو کتنا عمدہ ہے ؎زمین سجدہ پر اُن کی نگاہ کا عالم برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر ایک جغرافیہ سوچو کہ ایک بندہ سمندر کے کنارے ہے، وہاں اور کوئی نہیں ہے، بس آسمان ہے اور وہ ہے، اس وقت وہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھے ؎آہ را جز آسماں ہمدم نبود راز را غیرِ خدا محرم نبود میری آہ کا آسمان کے سوا کوئی ساتھی نہیں ہے اور میری محبت کے راز کا سوائے اللہ کے کسی کو علم نہیں ہے۔ وہ بندہ اکیلا رورہا ہے اور اس زمین پر اُس کے آنسو گررہے ہیں، تو اللہ کو اس پر کتنا پیار آئے گا۔ اگر بچہ رورہا ہو تو باپ بچے کے آنسوؤں کو بھی پیار کرلیتا ہے۔ امام احمد ابن حنبل کی قربانی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اس کرتے کو جس میں انہیں کوڑے مارے گئے تھے منگوایا، فَغَسَلَہُ الشَّافِعِیُّ فَشَرِبَ مَاءَ ہٗ استاد نے اس کرتے کو دھویا اور اس کا پانی پی لیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے شاگرد