استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے، وہ اگر جان دینے پر بھی مل جائے تو بھی سستا سودا ہے ؎متاعِ جانِ جاناں جان دینے پر بھی سستی ہے اللہ تعالیٰ کے قرب کی دولت جان دینے پر بھی ہمارے لیے ارزاں ہے۔ ایک غلام خالق پر فدا ہے، اس کے ساتھ اللہ ہے، جس کے ساتھ اللہ ہو اس کی قیمت کا کیا اندازہ کرسکتے ہو۔ (سمندر کے کنارے دیگر ملفوظات) اصل میں میرا ذوق یہی ہے، میں یہی زندگی پسند کرتا ہوں، میں پھولپور میں بھی جب حضرت سوجاتے تھے تو وہاں جنگل میں ایک چھوٹا سا دریا تھا وہاں جاکر چادر اوڑھ کر لیٹ جاتا تھا، وہاں اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن میں سفید چادر اوڑھے لیٹا تھا کہ مجھے دیکھ کر ایک چرواہا ڈر گیا، وہ سمجھا کہ کوئی مردہ ہے، اس نے زور سے کہا یا جبرئیل اور اپنی گائے وغیرہ لے کر بھاگا، اس کا یاجبرئیل کہنا مجھے اب تک یاد ہے۔ آہ! کیا کہیں بس یہی دل چاہتا ہے کہ ہر وقت اﷲ کے عاشقوں کی جماعت ساتھ ہو ؎میری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا تیرے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا اللہ تعالیٰ نے آج میرے اشعار کی عملی شکل دکھادی، میرے اشعار کی ظاہری حسّی صورت نظر آگئی کہ اللہ نے اپنے عاشقوں میں جینا اور مرنا نصیب فرمایا حالاں کہ اس شعر کو کہے ہوئے بیس سال ہوگئے ہیں مگر اللہ نے میری مراد پوری فرما دی کہ خدا کے عاشقوں کی جماعت میرے ساتھ ہو اور اللہ کا نام لینے کی توفیق ہو اور نافرمانی کی دور دور تک کوئی صورت نہ ہو، نافرمانی کے اسبا ب دور دور تک نہ ہوں کیوں کہ اسبابِ نافرمانی سے دوری بھی فرض ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ دلیل بھی سنیں، تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا 14؎ اللہ کی حدود یعنی اﷲ کی نافرمانی کے قریب بھی نہ رہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہاں سمندر ہے، سب اپنے لوگ ہیں، کوئی غیر نہیں ہے، اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعَالَمِیۡنَ وَ لَا فَخْرَ یَارَبِّیْ ، اے اﷲ! آپ کا احسان و کرم _____________________________________________ 14؎البقرۃ:187