استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
کی حدود میں جو کھانا ملے کھالو۔ ہمارا پیٹ پابندِ حدودِ تقویٰ ہے، جس کا بطن تابع باطن ہو پھر کیا پوچھتے ہو، پھر تو اس کا بطن بھی باطن ہے، اس کا معدہ اس کا قلب ہے کیوں کہ قلب میں جو خشیت ہے وہ اس کے تابع ہے، اس کا معدہ ایسا نہیں ہے کہ کھانے پینے کے لیے سارے قانونِ الٰہی توڑ کر جو چاہے کھالے۔ نفس کا مزاج چور ہے، فوراً حسینوں کا حرام نمک چرالیتا ہے لہٰذا اس کی ہر وقت نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے، یہی اصلی پاسِ انفاس ہے۔ وسوسوں کا علاج میں نے بیان کے شروع میں حدیثِ پاک کی جو دعا پڑھی تھی کہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ تو قلب کا لفظ بتاتا ہے کہ وساوس کا تعلق قلب سے ہے۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! وسوسوں کا علاج صرف عدم التفات ہے۔ حضرت نے اس پر قسم کیوں کھائی؟یہ ترحم اور غلبۂ شفقت ہے کہ امت میری بات کو تسلیم کرلے ورنہ قسم کھانے کی کیا ضرورت ہے،حضرت نے کسی کا کوئی مال لیا ہوا تھا کہ خدا کی قسم کھارہے ہیں،یہ تَرَحُّمْ عَلَی الْاُمَّۃِ ہے، امت پرشفقت اور محبت ہے۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ واللہ! خدا کی قسم! وسوسوں کا علاج صرف عدم التفات ہے یعنی ان کی طرف توجہ نہ کرو، نہ جلباً نہ سلباً یعنی وسوسوں کو خود سے لاؤ بھی نہیں اور انہیں دھکا بھی نہ دو جیسے بجلی کا ننگا تار ہے اگر اسے دھکا دیا تب بھی لپٹ جائے گا۔ بس ان وسوسوں کو یوں سمجھ لو کہ جیسے کوئی شاہراہ پر چل رہا ہے، سپر ہا ئی وے پر چل رہا ہے،اس شاہراہ پر بادشاہ بھی جارہا ہے، کتا بھی جارہا ہے، گدھا بھی جارہا ہے، بھنگی بھی جارہا ہے، ایسے ہی دل میں ہر وقت طرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں لہٰذا ان کی طرف توجہ ہی مت کرو۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے اور آدمی چاہتا ہے کہ تمام وساوس دفع ہوجائیں تو اس وقت یہ مراقبہ کرو کہ اللہ اکبر! کیا شان ہے اللہ کی کہ چھوٹا سا دل ہے مگر فکر اور وسوسوں کا سمندر چلا آرہا ہے، واہ رے میرے مالک کیا شان ہےآپ کی! سمندر کتنا بڑا ہے مگر ہمارے دل میں آرہا ہے، آسمان کتنا بڑا ہے مگر ہمارے دل میں موجود ہے، جنوبی افریقہ کتنا بڑا ہے جس میں لینِیشیابھی موجود اور آزادوِل بھی