استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ہوں، اللہ کی ذات میری مراد ہے اور آنکھوں سے غیر اللہ کو دیکھتا ہے، بدنظری کرتا ہے، کالی گوری کو دیکھتا ہے۔ یہ میرے ایسے عاشق ہیں کہ میں ان کے دل میں ہر وقت مراد رہتا ہوں اور اس کی شہادت ان کے قالب بھی پیش کرتے ہیں یعنی وہ بِقُلُوْبِہٖ وَ بِقَوَالِبِہٖ مجھ پر فدا رہتے ہیں، دل سے بھی اور جسم سے بھی، ان کے کسی صوبے سے بغاوت نہیں ہونے پاتی، ان کا دل ایسا ایمان و احسان اور اسلام و یقین کے مقام پر ہوتا ہے کہ ان کا پورا قالب ان کے کسی صوبے میں بغاوت نہیں کرسکتا، جب بادشاہ مضبوط ہوتا ہے تو کسی صوبے میں ہمت نہیں ہوتی کہ بغاوت کرجائے ؎ہم خاک نشینوں کو نہ مسند پہ بٹھاؤ یہ عشق کی توہین ہے اعزاز نہیں ہے عاشق کبھی طامع اکرام نہیں ہوتا، وہ تو اپنے شیخ سے یہی کہتا ہے جو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست میں کہا تھا ؎ہاں مجھے مثل کیمیاء خاک میں تو ملائے جا شان میری گھٹائے جا رُتبہ میرا بڑھائے جا تواضع کی حقیقت حدیث پاک ہے مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ 22؎ جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی اللہ اس کےرُتبے بلند کرے گا۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےرفعت کو رُتبہ سے تعبیر کیا اور تواضع سے یہ مرادہے کہ تَوَاضَعَ لِلہِ ہونی چاہیےیعنی صرف اﷲ ہی کےلیےہونی چاہیے،اس نیت سے تواضع مت کرو کہ لوگ ہم کو کہیں گے کہ یہ بہت متواضع ہے، یہ تَوَاضَعَ لِلہِ نہیں ہے،یہ تَوَاضَعَ لِلْخَلْقِ ہے، اپنے کواللہ کے لیے مٹاؤ۔ ہم اپنی قیمت یہاں کیوں لگائیں؟ جب قیامت کا دن آئے گا اور اللہ ہم کو پاس کر دے گا، رزلٹ آؤٹ کردے گا تب ہم اپنی قیمت وہاں لگائیں گے کہ یااللہ! تیرا شکر ہے، اور وہاں بھی اپنی قیمت ہم _____________________________________________ 22؎کنز العمال:112/3 (5730) ،باب تعدیل الاخلاق المحمودۃ،مؤسسۃالرسالۃ