استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی جنہیں اللہ کے راستے میں کوڑے مارے گئے تھے اتنی قدر کی کہ ان کے کرتے کو دھو کر اس کا پانی پیا وَ ھٰذَا مِنْ اَجَلِّ مَنَاقِبِ اِمَامِ اَحْمَدَ ابْنِ حَنْۢبَلٍ رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی یہ امام حنبل کے اجل مناقب میں سے ہے کہ استاد اپنے شاگرد کا کرتا دھو کر اس کا پانی پی لے۔ یہ تو مخلوق کی رحمت ہے،حق تعالیٰ کی رحمت اپنے عاشقوں کے اشکِ ندامت کو کس طرح پیار کرتی ہے، اس پر میرا شعر دیکھو ؎زمین سجدہ پر ان کی نگاہ کا عالم برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر راہِ خدا میں خرچ کی فضیلت اسم موصول بلاغت کے لیے آتا ہے، جیسے قران پاک میں ہے یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا 19؎ خوب خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر نہیں کیا کہ وہ کتنا خرچ کرتے ہیں، وہ اللہ کے راستے میں اتنا خرچ کرتے ہیں کہ اللہ نے اس کو اسم موصول سے بیان کردیا کہ دیتے ہیں جو دیتے ہیں۔ آہ! کیا بلاغت ہے۔ ایسے ہی میرے اس شعر کو دیکھو ؎برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر یہ آنسو جگر کا خون ہوتے ہیں جو اللہ کی محبت اور خوف سے پانی ہوجاتے ہیں، ان کا ایک ایک قطرہ جہنم سے نجات کی ضمانت ہے۔ اللہ کے راستے کا آنسو، خوف کا آنسو ہو یا محبت کا آنسو ہو، اللہ کی مغفرت اور رحمت کی ضمانت ہے، اپنے چہرے پر جہاں جہاں بھی ہوسکے اس آنسو کو مَل لو اور خوب پھیلا لو، ان شاء اللہ جہنم کی آگ وہاں نہیں لگے گی۔ غیر اللہ کو مراد بنانے والا نامرادِ سلوک ہے آج مجھے ماریشس کے سمندر کے کنارے جنگل میں ایک نیا مضمون عطا ہوا کہ میرے عاشق وہی ہیں جو یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ہیں، جن کا ہر لمحہ میں ہی مراد ہوں، حالاً و استقبالاً، _____________________________________________ 19؎المؤمنون:60