استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
دامت برکاتہم اس کے راوی ہیں کہ سلطان ابراہیم ابن ادہم اتنے بڑے شخص ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام کو گزرتے دیکھا تو پوچھا کہ اے جبرئیل تم کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ روئے زمین کے سب اولیاء اللہ کا نام ایک رجسٹر میں درج کرلوں، حضرت سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ اے جبرئیل! جب سارے اولیاء اللہ کے نام لکھ لینا تو آخر میں میرا نام بھی لکھ لینا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سلطان ابراہیم ابن ادہم کا نام سب سے پہلے لکھنا۔ تو ا س مجذوب نے کہا کہ یااﷲ! میں دس سال سے آپ کا دیوانہ ہوں اور آپ مجھ کو چٹنی روٹی کھلا رہے ہیں اور ایک نیا دیوانہ آیا ہے اس کو آپ نے بریانی بھیج دی، وہ مجذوب سادہ آدمی تھا، اس کا یہ مدعا سادگی کی وجہ سے تھا، بغاوت اور نافرمانی پر مبنی نہیں تھا، بھول پن اور سادہ پن تھا، مجذوب سیدھے سادے ہوتے ہیں، یہ سوال انکاریہ نہیں تھا، اقراریہ تھا یعنی ہمیں اقرار ہے کہ آپ کا جو حکم ہے وہ سب حکمت پر مبنی ہے، میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں دس سال سے آپ کا عاشق ہوں مجھے چٹنی روٹی دی ا ور یہ جنگل میں کل آیا ہے اور اس کو بریانی دی۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ تم نے مجھ پر بارہ آنہ فدا کیے،چار آنے کا کھرپا اور آٹھ آنے کا گھاس رکھنے کا برتن، اور یہ جو کل جنگل میں آیا ہے اس نے مجھ پر سلطنت فدا کی ہے، وزیروں کی سلامی، فوج کا گارڈ آف آنر ، بریانی، کباب، موبائل اور موبل آئل سب چھوڑ کر آیا ہے، جیسی جس کی قربانی ویسی اللہ کی مہربانی۔ نظر بچانے کے لیے لذّتِ بصارت کی قربانی جو لوگ غم اٹھاتے ہیں، ایئر ہوسٹسوں سے نظر بچاتے ہیں، سڑکوں پر ہرسانس اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں جن کی ہر سانس غم زدہ ہے، حسرت زدہ ہے، زخم زدہ ہے۔جو دریائے خون بہا رہا ہے اس کے دل میں معمولی مجاہدہ نہیں ہے، دریائے خون کا بہانا یہ معمولی مجاہدہ نہیں ہے، اس دریائے خون کو حاسد لاکھ چھپائے کہ اس پیر کے پاس مت جاؤ، اس کی اتنی غیبت کرو کہ اس پیر سے کوئی مرید ہی نہ ہو۔ اس پر میرا شعر سنو ؎