استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
میں زیادہ ذکر کرنے سے دماغ میں خشکی بڑھ جاتی ہے جب کہ وہ زمانہ بہت ہی قوی لوگوں کا تھا، اب ہر وقت یہ تصور کرنا کہ میری ہر سانس سے لَا اِلٰہَ نکل رہا ہے اور اِلَّا اللہُ اندر جارہا ہے، اس تصور سے بھی خشکی بڑھ جائے گی، بس اپنی ہر سانس میں یہ خیال رکھو کہ میری کوئی سانس اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں مصروف نہ ہو تو پاسِ انفاس ہوگیا۔ پاس معنیٰ خیال رکھنا ہے، جیسے کہتے ہیں کہ بھئی! ہمارا پاس رکھنا یعنی پاسبانی، نگہبانی، خیال رکھنا اور دیکھ بھال کرنا۔ اور انفاس نَفَس کی جمع ہے، نَفَس سانس کو کہتے ہیں۔ کسی وقت اللہ سے غافل نہ ہو، جیسے جہاز میں بیٹھو تو یہ مراقبہ رکھو کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے اور میرا ہر لفظ نوٹ ہورہا ہے، مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ 7؎ ہمارا لفظ لفظ لکھا جارہا ہے۔ اب بتائیے! جس کے ساتھ اتنی بڑی سی آئی ڈی (CID) لگی ہوئی ہے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے وہ لکھا جارہا ہے، کسی معشوق اور محبوب سے حرام گفتگو کے دوران جو لفظ نکلتے ہیں وہ فوراً نوٹ ہورہے ہیں، ایسے ہی ایئرہوسٹس سے جو گفتگو نکلتی ہے وہ سب نوٹ ہورہی ہے کہ اس لفظ میں کہیں آمیزشِ نفس تو نہیں ہے اور ایئرہوسٹس میں بعض تو بہت ہی زیادہ وائٹ کلر کی ہوتی ہیں مگر ان میں نمک نہیں ہوتا، خالی کلر سے کیا ہوتاہے، ان کا ڈیزائن اور ان کا جغرافیہ اچھا نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ ہمارے نفس کو اس سے مجاہدہ ہو اور بعض کالی ہوتی ہیں مگر کالی بلا ہوتی ہیں، بات چیت کرنے میں ان کا جغرافیہ پُرکشش ہوتا ہے، تو حسینوں کے کالے یا گورے رنگ پر نظر نہ رکھو بلکہ یہ خیال رکھو کہ ان پر نظر نہ پڑنے پائے۔ ہم کو اپنے نفس پر کیسے اطمینان ہوسکتا ہے کہ ایئر ہوسٹس کو دیکھ کر ہم یہ کہیں کہ یہ لے آؤ، وہ لے آؤ اور نفس اس کے چہرے کا نمک چوری نہ کرلے، یہ ناممکن ہے۔ ساری دنیا کی خانقاہوں میں جاکر پوچھو کہ پاسِ انفاس کیا ہے؟وہ یہی کہیں گے ہر سانس میں ذِکر جاری ہو، سانس جب اِنْ (In) ہو یعنی اندر داخل ہو تو یہ خیال کرو کہ ا س سانس سے لَا اِلٰہَ نکل رہا ہے اور جب ایگزٹ (Exit) ہو یعنی باہر نکلے تو یہ خیال کرو کہ اس سانس سے اِلَّا اللہُ اندر داخل ہورہا ہے۔ مگر تھانہ بھون کی خانقاہ کا اعلان یہ ہے کہ اس زمانے میں _____________________________________________ 7؎ق:18