استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
آیندہ بھی ان کا یہی عزم ہے کہ اپنے اللہ کو ناراض نہیں کروں گا، جان دے دوں گا مگر مالک کو ناراض نہیں کروں گا۔ اللہ کے عاشقوں کی یہ شان ہے کہ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ وہ ہم کو یاد بھی کرتے ہیں اور اپنی مراد بھی ہم ہی کو بناتے ہیں۔ بعض لوگ ہم کو یاد تو کرتے ہیں یعنی نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، ذکر بھی کرتے ہیں، قرآن و حدیث بھی پڑھاتے ہیں، دارالعلوم بھی کھولتے ہیں، فتویٰ بھی دیتے ہیں لیکن کبھی کبھی میرے علاوہ غیروں کو بھی اپنا مراد بناتے ہیں، غیر اللہ پر بھی نظر ڈالتے ہیں، اس وقت ہم ان کے قلب میں مراد نہیں ہوتے، وہ اس وقت میرا مرید نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے دل میں میں مراد نہیں ہوں، یہ ظالم اس وقت مجھ سے نامراد ہے اور غیر اللہ کو مراد بنائے ہوئے ہے، میرا نامراد اور غیر اللہ کا بامراد ہے، غیروں کو دیکھ رہا ہے اور اس کو یہ پتا نہیں ہے کہ یہ جہاں دیکھ رہا ہے میں بھی اس ظالم کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ جس چیز کو ہم نے حرام کردیا اسی کو دیکھ رہا ہے۔ کھلاتا میں ہوں، نمک میرا کھاتا ہے اور دیکھتا دوسروں کو ہے، نمک حرامی کرتا ہے، مرنے والوں کا نمک چکھتا ہے اور میرے یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ 20؎کے قانون کو توڑتا ہے، یعنی نظروں کی حفاظت نہیں کرتا، اس ظالم کو اپنا دل توڑنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے کہ اپنا دل توڑ دے مگر میرا قانون نہ توڑے، میرا قانون توڑ کر، غَضِّ بَصَر کا حکم توڑ کر اپنا دل توڑنے کی بجائے اپنے دل کو سلامت رکھتا ہے اور میرے قانون کو توڑتا ہے، یہ کیسا عاشق ہے؟ یہ عاشق نہیں ہے، فاسق ہے۔اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے بارے میں فرماتے ہیں جن پر کافروں نے بلا وجہ ظلم کیا کہ میرے ان بندوں کا قصور کیا تھا: وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ 20 ۙ؎ہمارے مسلمان بندوں کو جو آگ میں ڈالا جارہا ہے تو ان کا کوئی قصور نہیں تھا، وَ مَا نَقَمُوۡا ان میں کوئی عیب نہیں تھا، اِلَّاۤ مگر ایک جرم تھا، اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا یہ مجھ پر ایمان لائے تھے۔ اﷲ نے یہاں اپنے عاشقوں کے ایمان کو جرم سے جو تعبیر کیا ہے تو یہ کیا ہے؟ یہ تَاکِیْدُ _____________________________________________ 20؎ النور:30 21؎البروج:8