استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی شان بیان فرمارہے ہیں یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ،مطلب یہ ہے کہ یہ حالاً و استقبالاً ہروقت مجھے اپنی مراد رکھتے ہیں، یہ اﷲ کے عاشقوں کا حال بیان ہورہا ہے جو اُن کے ذوالحال کے لیے ہر وقت مقید ہے یعنی وہ اللہ کے عشق ومحبت میں ہر وقت گرفتار ہیں اور ایسے گرفتار ہیں کہ اپنی قید سے آزاد نہیں ہونا چاہتے ؎پابندِ محبت کبھی آزاد نہیں ہے اس قید کی اے دل کوئی میعاد نہیں ہے مگر اس قید کی میعاد ہے، وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ 9؎ جب موت آجائے تو بس اب چھٹی، پھر تو مزے ہی مزے ہیں، سب مجاہدہ ختم، مجاہدۂ بندگی ختم۔ دوستو! اختر سمندر کے کنارے یہ مضمون پیش کررہا ہے کہ ہم سب لوگ کوشش کریں، عہد کریں اور ارادہ کریں کہ کسی بھی وقت ایسا نہ ہو کہ ہمارے قلب میں اللہ مراد نہ ہو اور یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ کے دائرے سے ہمارا خروج ہوجائے۔ جس وقت کوئی بدنظری کرتا ہے، کسی کالی یا گوری کو دیکھتا ہے یا کوئی حرام کام کرتا ہے تو اس وقت یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ کے دائرے سے اس کا خروج ہے۔ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ کا ترجمہ کیا ہے؟ کہ میرے خاص بندے ہر وقت مجھ کو مراد رکھتے ہیں اور آیندہ بھی مجھ کو مراد رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ترجمے ہوگئے، حال کا بھی اور استقبال کا بھی، فعل مضارع میں حال اور مستقبل دونوں زمانے ہوتے ہیں۔ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ 10؎ میرے بندے اپنے رب کو یاد بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے یہاں محض یاد کو کافی نہیں فرمایا کہ بس ہر وقت میرا ذکر ہی کرتے رہو بلکہ یہ فرمایا کہ مجھ کو ہر وقت اپنی مراد بھی بناؤ، میرے علاوہ کسی چیز کاارادہ بھی نہ کرو اِلّا یہ کہ وہ ارادہ میری مرضی کے تابع ہو، یہاں کھانا پینا مراد نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے کھاتے ہیں تاکہ جان بنے تو جان اﷲ پر فدا کریں، اگر کوئی شخص اپنے بکرے کو اچھا کھلاتا ہے تاکہ قربانی کے زمانے میں اس کی قربانی کرے تو بکرے کو بڑھیا مال کھلانے کا ثواب ہے یا _____________________________________________ 9؎الحجر:99 10؎الکہف:28