داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
اب کیا کریں دردِ دل کچھ بولنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جہاں دینے سے کیا مراد ہے؟ اگر کوئی کہے کہ میں تو غریب آدمی ہوں تو یہاں جہاں دینے سے تمنائے قلب مراد ہے، یہاں دل کی آرزوؤں کی دنیا مراد ہے۔ بس قلب اﷲ پر فدا کرو مع اس کے مظروف کے،ظرف اﷲ پر فدا کرو مع مظروفات کے اور مظروفات کیا ہیں؟ خواہشات۔ جو خواہشات مرضئ مولیٰ کے موافق ہوں انہیں پورا کرلو اور جو حرام ہوں تو حرام مال سے دل خوش مت کرو، اﷲ کا نمک کھاتے ہو، نمک حرامی مت کرو، آپ کسی کوروٹی کھلائیں اور وہ آپ سے غداری اور بے وفائی کرے اور الیکشن میں آپ کے خلاف ووٹ دے تو آپ اس کو نمک حرام کہتے ہیں یا نہیں؟ تو جب شیطان ونفس کا الیکشن ہو اور اﷲ تعالیٰ کے قانون کا مقابلہ ہو تو کس کو ووٹ دینا چاہیے؟ نفس وشیطان کو یا اﷲ تعالیٰ کو؟ اب دیکھو جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو اپنی گندی خواہش اور بدنظری وغیر ہ کو نہ چھوڑے اور اﷲ کے حکم کو توڑ دے اور اپنا دل حرام خوشیوں سے خوش کر لے، دل نہ توڑے اور خدا کا قانون توڑ دے تو یہ شخص مردانِ راہِ حق میں سے نہیں ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اے مخنث نےَ تو مردی نےَ تو زن نہ تو مرد ہے، نہ عورت ہے تو ہیجڑا ہے، مخنث ہے۔ ہیجڑو ں میں طاقت نہیں ہوتی، ہمت نہیں ہوتی، ناک پر انگلی رکھ کر عورتوں کی طرح بولتے ہیں اور جہاد میں ایسا بھاگتے ہیں کہ مڑکے پیچھے بھی نہیں دیکھتے، اسی لیے مخنثوں کو فوج میں نہیں رکھا جاتا، اﷲ کے راستے کے رجال اور فوجی مخنث کیسے ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا مخنثیت سے توبہ کرو، جان کی بازی لگانے کا ارادہ کرو تب اﷲ ملتا ہے یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ کا یہی ترجمہ ہے کہ وہ اﷲ کی ذات کا ارادہ کرتے ہیں اور جان کی بازی لگاتے ہیں یُرِیْدُوْنَ میں حال بھی ہے، استقبال بھی ہے، مضارع حاملِ حال و استقبال ہوتا ہے یعنی فی الحال بھی جان دیتے ہیں اور آیندہ کے لیے بھی ارادہ رکھتے ہیں مگر اﷲ کو ناراض کر کے حرام خوشیوں کو اپنے اندر نہیں آنے دیتے۔ لہٰذا ارادہ کرلو ؎ شیخ پینے کا ارادہ تو کریں حوضِ کوثر سے منگا لی جائے گی